اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِيۡهِنَّ اَنۡفُسَكُمۡ ؕ وَقَاتِلُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ كَآفَّةً ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 36
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِيۡهِنَّ اَنۡفُسَكُمۡ ؕ وَقَاتِلُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ كَآفَّةً ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞
ترجمہ:
بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینہ ہے، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں یہی دین مستقیم ہے سو ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، اور تم تمام مشرکین سے قتال کرو جیسا کہ وہ تم سب سے قتال کرتے ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، یہی دین مستقیم ہے، سو ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، اور تم تمام مشرکین سے قتال کرو جیسا کہ وہ تم سب سے قتال کرتے ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے (التوبہ : ٣٦)
عبادات اور معاملات میں قمری قوتیم کا اعتبار ہے :
یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ عبادات اور معاملات کے احکام ان مہینوں اور سالوں کے اعتبار سے مقرر کیے جائیں گے جو مہینے اور سال اہل عرب کے نزدیک معروف تھے۔ نہ کہ وہ مہینے جو عجمیوں، رومیوں، قبطیوں اور ہندیوں کے نزدیک معروف تھے۔ غیر عرب کے نزدیک مہینہ تیس دنوں سے زیادہ کا بھی ہوتا ہے اور عرب کے نزدیک مہینہ کا اعتبار چاند کے حساب سے ہوتا ہے اور ایک مہینہ تیس دن سے زیادہ کا نہیں ہوتا، البتہ تیس دن سے کم کا مہینہ بھی ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے :
ہوالذی جعل الشمس ضیآئً والقمر نوراً وقدرہٗ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب۔ (یونس : ٥)
ترجمہ : وہی جس نے سورج کو روشنی دینے والا بنایا اور چاند کو روشن اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب جان لو۔
یسئلونک عن الاہلۃ ط قلھی مواقیت للناس والحض۔ (البقرہ : ١٨٩)
ترجمہ : لوگ آپ سے نئے چاندوں کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ کہئے کہ وہ لوگوں (کی عبادات اور معاملات اور خصوصاً ) حج کے لیے اوقات کی نشانیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان بارہ مہینوں کو مقرر کیا اور ان کے نام رکھے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں پر جو کتابیں نازل کیں ان میں ان مہینوں کا ذکر کیا۔ اللہ کی کتاب سے مراد لوح محفوظ بھی ہوسکتی ہے۔
حرمت والے مہینوں کا بیان اور ان کا شرعی حکم :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں : حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زمانہ گھوم کر اپنی اصل شکل پر آچکا ہے۔ جب اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں۔ ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مہینے متواتر ہیں : ذوالقعدۃ، ذوالحجہ اور محرم اور (قبیلہ) مضر کا رج جو جمادیٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٦٢، مطبوعہ دار ارقم بیروت) ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : سو تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ ہرچند کہ کسی مہینہ میں بھی ظلم کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ مہینے چونکہ حرمت والے ہیں اس لیے ان مہینوں میں گناہ کرنا زیادہ شدت سے ممنوع ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کی ایک وجہ سے عظمت اور حرمت مقرر فرماتا ہے تو وہ ایک وجہ سے محرم اور مکرم ہوتی ہے اور جس چیز کی دو یا دو سے زیادہ وجہ سے حرمت و اور عظمت مقرر فرماتا ہے تو وہ دو یا دو سے زیادہ وجہ سے مکرم اور محرم ہوتی ہے۔ پس اس میں برے کاموں پر عذاب بھی دگنا چوگنا ہوتا ہے۔ جس طرح اس میں نیک کاموں کا اجر وثواب بھی دگنا اور چوگنا ہوتا ہے۔ سو جو شخص حرمت والے مہینہ مثلاً ذوالحجہ میں یا حرمت والی جگہ مثلاً مکہ مکرمہ یا مسجد حرام میں عبادت کرے گا اس کا اجر وثواب دوسرے اوقات اور دوسری جگہوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوگا اور جو شخص اس حرمت والے مہینہ اور حرمت والی جگہ میں برے کام کرے گا اس پر مواخذہ بھی دگنا چوگنا ہوگا۔ اس کی نظیر یہ آیت ہے :
یٰٓنساء النبی من یات منکن بفاحشۃٍ مبینۃٍ یضعف لھا العذاب ضعفین۔ (الاحزاب : ٣٠)
ترجمہ : اے نبی کی بیویو ! اگر تم میں سے کوئی ایک کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے تو اس کو دگنا عذاب دیا جائے گا۔
پہلے ان مہینوں میں قتال کرنا جائز نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم منسوخ کردیا اور تمام مہینوں میں قتال کو مباح کردیا۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہوازن سے حنین میں اور ثقیف سے طائف میں قتال کیا اور شوال اور ذوالقعدہ کے بعض ایام میں ان کا محاصرہ کیا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 36