کیا کرونا ہمیں تقسیم نہیں کررہا؟

از: افتخار الحسن رضوی

علماء کا احترام واجب ہے، ان کی آراء دینی اعتبار سے نہایت اہم ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح کا ذمہ و اختیار علماء ہی کے پاس ہے۔ کوئی ڈاکٹر اس منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔ لیکن مولوی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہر سائنسی تحقیق اپنے لیے ایک چیلنج نظر آتی ہے۔ اس وقت دنیا ایک ایسی مصیبت و مشکل میں مبتلا ہے جس نے کائنات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کل دنیا کی ساٹھ فیصد مینوفکچرنگ انڈسٹری بند ہو چکی ہے، ائیر لائن انڈسٹری میں صرف کارگو جہاز محو پرواز ہیں۔ دنیا بھر کے سکول، کالجز اور یونیورسٹیز مکمل بند ہیں۔ بلاد عرب، شرق و غرب کے جمہوری و غیر جمہوری مسلم ممالک کے علماء نے فتوے جاری کر دیے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے social distance رکھیں۔ رسول اکرم ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بیماری contagious ہوتی ہے (از خود نہیں بلکہ اللہ کی قدرت سے)، طاعون سے بچنے کے لیے سرکار کریم ﷺ کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر اس پر حرفِ آخر ہیں۔ لیکن اس صورتِ حال میں بعض پاکستانی و ہندوستانی لکھاری اس حقیقت کو جھٹلا کر قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال جناب لقمان شاہد صاحب کی اس تحریر میں دیکھیے، وہ لکھتے ہیں؛

“ہمارے علاقے کے ایک شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ، اسے کہا گیا، ان سب لوگوں کے نام بتاؤ جن سے تم نے ان دنوں ملاقات کی ہے ۔اس نے سب کے نام بتائے ، ان سب کو ہاسپٹل بلایا گیا اور ٹیسٹ لیے گئے ، لیکن ، ان کے ٹیسٹ کلیئر آئے ، اور انھیں گھر بھیج دیا گیا ۔

زیادہ نہیں ، تھوڑا سا ہی سوچ لیں کہ:

اگر کرونا کے مریض کو ٹچ کرنے کی وجہ سے ہی بندہ مریض بن جاتا ہے ، تو اسے ٹچ کرنے والے یہ لوگ مریض کیوں نہیں بنے ؟؟

یہ‌ الفاظ پھر پڑھیں:

اگر کرونا کے مریض کو ٹچ کرنے کی وجہ سے ہی بندہ مریض بن جاتا ہے ، تو اسے ٹچ کرنے والے یہ لوگ مریض کیوں نہیں بنے ؟؟

صرف یہی نہیں ، ایسے کئی ہزار افراد ہوں گے جنھوں نے لاعلمی میں کرونا زدگان سے ملاقاتیں کیں ، ان کے ساتھ کھایا پیا ، اٹھے بیٹھے ؛ لیکن انھیں کچھ نہیں ہوا “۔

ان کی یہ تحریر اگر کسی منظم ملک میں شئیر ہوتی تو فوری طور پر ایک سنگین نوعیت کا مقدمہ درج ہوتا اور انہیں software update کے لیے بھرتی کر لیا جاتا۔ آپ دیکھیے کس انداز میں وہ ایک اسلامی و سائنسی حقیقت کو جھٹلا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے بیماری کے پھیلاؤ میں لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔

لقمان شاہد “حکیم لقمان” بننے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی خود کو عقل کل بتائیں۔ اگر لقمان صاحب کو میڈیکل سائنس کا بنیادی علم بھی ہوتا تو وہ جان جاتے کہ وہ از خود درجنوں بار نزلہ، زکام، کھانسی یا ENT سے متعلقہ ہلکی پھلکی پیچیدگیوں کو شکار صرف اس وجہ سے ہوئے کہ Seasonal Viruses ان کے علاقے میں بکثرت موجود ہیں۔ کسی بھی موقع پر وہ فورا کہانی گھڑ لاتے ہیں جیسے وہ چہار دانگ عالم میں وحدہ لا شریک معالج و جائے پناہ ہوں اور ساری کائنات کے مساکین، یتیم، بیمار اور لاچار لوگ اپنے ایکسرے لیے ان کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔

مصیبت کے اس وقت میں علماء کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ وہی روایتی ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے امت کو تقسیم در تقسیم کریں۔ اس سلسلہ میں دعوت اسلامی کے حالیہ اقدامات لائق تقلید ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان، مفتی منیب الرحمٰن مدظلہ العالی سمیت تمام جید علماء نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق فتوٰی جاری کیا ہے۔ عوام اور علماء پر فرض ہے کہ موجودہ صورت حال میں حکومتِ وقت کی اطاعت کریں، اور عالمی صحت کے ماہرین کی تجاویز پر عمل کریں، ہاں اگر کوئی بات صریحا احکامِ اسلامیہ کے خلاف ہو تو اس سے بچنا ہم سب پر فرض ہے۔