أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنۡ تُصِبۡكَ حَسَنَةٌ تَسُؤۡهُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ تُصِبۡكَ مُصِيۡبَةٌ يَّقُوۡلُوۡا قَدۡ اَخَذۡنَاۤ اَمۡرَنَا مِنۡ قَبۡلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمۡ فَرِحُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اگر آپ کو کوئی بھلائی پہنچے (آسمانی مدد یا مال غنیمت) تو ان کو بُرا لگتا ہے، اور آپ کو کوئی مصیبت پہنچے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی احتیاط کرلی تھی (کہ جہاد میں نہیں گئے تھے) اور یہ خوشیاں مناتے ہوئے لوٹتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اگر آپ کو کوئی بھلائی پہنچے (آسمانی مدد یا مال غنیمت) تو ان کو بُرا لگتا ہے، اور آپ کو کوئی مصیبت پہنچے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی احتیاط کرلی تھی (کہ جہاد میں نہیں گئے تھے) اور یہ خوشیاں مناتے ہوئے لوٹتے ہیں (التوبہ : ٥٠ )

اس آیت میں منافقین کے خبث بواطن کی ایک اور نوع بیان فرمائی ہے، کہ بعض غزوات میں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کامیابی حاصل ہو یا مال غنیمت حاصل ہو، یا جن بادشاہوں کے خلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کیا تھا وہ مطیع اور باج گزار ہوگئے ہوں تو ان کو برا لگتا ہے اور اگر مسلمانوں کو کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہو تو اس پر یہ خوش ہوتے ہیں،

حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ بھلائی سے مراد جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح ہے اور مصیب سے مراد جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست ہے۔ اگر یہ روایت ثابت ہو تو اس آیت کو اسی معنی پر محمول کرنا واجب ہے ورنہ اس آیت میں عموم مراد لینا زیادہ مناسب ہے، کیونکہ منافقین کو مسلمانوں کی ہر بھلائی سے رنج ہوتا تھا۔ او ان کو مسلمانوں کی ہر مصیبت سے خوشی ہوتی تھی۔

امام ابن جریر نے اس آیت کے شان نزول میں اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے : حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جد بن قیس نے کہا کہ غزوہ تبوک کے اس سفر میں مسلمانوں کو کوئی بھلائی پہنچی یعنی فتح حاصل ہوئی، تو اس کو اور دیگر منافقین کو برا لگے گا۔ (جامع البیان جز ١٠ ص ١٩٣، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 50