أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ‌ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

سو ان کے مال اور اولاد سے آپ متعجب نہ ہوں اللہ یہ ارادہ فرماتا ہے کہ ان کو ان کے مال اور ان کی اولاد کے سبب سے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کفر کرنے والے ہوں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو ان کے مال اور اولاد سے آپ متعجب نہ ہوں، اللہ یہ ارادہ فرمایا ہے کہ انہیں ان کے مال اور ان کی اولاد کے سبب سے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کفر کرنے والے ہوں (التوبہ : ٥٥ )

مال اور اولاد کا سبب عذاب ہونا :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی تحقیر کی ہے اور یہ بیان فرمایا ہے کہ ان کو جو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کی کثرت عطا کی ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب میں مبتلا فرمائے، دنیا کی زندگی میں ان پر جو مصائب آتے ہیں ان پر ان کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملتا، اس لیے یہ مصائب ان کے لے محض عذاب ہیں، اس کے علاوہ شریعت نے ان کو زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ کی ادائیگی کا بھی مکلف کیا ہے جس کو وہ عذاب سمجھتے ہیں۔ جو شخص مال اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہو وہ دن رات جائز اور ناجائز طریقہ سے مال اور دولت کو جمع کرنے میں لگا رہتا ہے اور جیسے جیسے اس کے دل میں مال اور اولاد کی محبت بڑھتی جاتی ہے وہ آخرت اور یاد خدا سے غافل ہوتا جاتا ہے، جس شخص کے دل میں مال اور اولاد کی محبت نہ ہو بلکہ وہ دنیاوی امور سے بےرغبت اور بےپرواہ ہو، اسے مرتے وقت اور دنیا سے جدا ہوتے وقت کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ لیکن جو شخص مال و دولت اور اولاد سے شدت کے ساتھ محبت کرتا ہو اس پر موت بہت بھاری اور دشوار ہوتی ہے۔ اس کا دل دنیا میں لگا ہوا ہوتا ہے اور اب وہ دنیا سے رخصت ہوا چاہتا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ باغ سے نکل کر قیدخانہ کی طرف جا رہا ہو اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی مجالس سے نکل کر تنہائی اور غربت کی جگہ جا رہا ہو تو اس کا رنج و غم بہت بڑھ جاتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 55