وباء و فتن کی وجہ سے مساجد کا بند ہونا
((وباء و فتن کی وجہ سے مساجد کا بند ہونا))
تاریخ پر ایک نظر از مفتی محمد علی ابن طفیل الأزہری
ان ایام میں بعض کو یہ فرماتے ہوئے سنا جارہا ہے کہ تاریخ میں مساجد کا بند ہونا اور تعطل جماعت و جمعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ لہذا اس تحریر میں عبد عاجز تاریخی واقعات ذکر کررہا ہے جس میں آپکو انفرادی اور اجتماعی طور پہ بہت سی مثالیں ملیں گی جس سے واضح ہوجائے گا کہ کس طرح مساجد بند ہوئیں اور نماز باجماعت اور جمعہ میں تعطل واقع ہوا ۔اور تعطل کا سبب یا وباء ہے یا دیگر فتن ہیں ہم ان میں بعض کا ذکر کریں گے زیادہ تر وباء والے واقعات کو قلمبند کریں گے جوکہ محل اختلاف ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں ایسی وباؤں اور واقعات سے محفوظ رکھے۔
اس تحریر سے قبل عبد عاجز اسی موضوع پہ کافی علمی پوسٹس کرچکا ہے جو صفحہ” ابن طفیل الأزہری” پہ موجود ہے ۔اور آج کی تحریر کا مقصد کسی سے اختلاف نہیں بلکہ ایک تاریخی تجزیہ آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
پہلا واقعہ:
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ اہواز کے علاقے میں اور دیگر شہروں میں ایک ایسی مرض آئی کہ جسکی وجہ سے صرف ایک دن میں اٹھارہ ہزار لوگوں کا جنازہ اٹھا ۔اتنی اموات ہوئیں کہ بازار خالی ہوچکے تھے۔ لوگوں نے سچی توبہ کی۔اپنے مال کا صدقہ و خیرات کردیا۔موسیقی کے آلات توڑ دیے۔لوگوں نے مساجد میں قراءت قرآن کرنا شروع کردیا۔۔ جس گھر میں بھی شراب تھی اس گھر کے لوگ اس وباء کی وجہ سے مرچکے تھے۔ جو لوگ مسجد میں داخل ہوئے وہ مرے ہوئے پائے گے۔ آگے لکھتے ہیں:
وخلت أكثر المساجد من الجماعات.
بہت سی مساجد نماز باجماعت سے خالی ہوچکی تھیں۔
(المنتظم ، وقوع وباء بأھواز واعمالہا۔ج :16 ، ص :18 ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
دوسرا واقعہ ( اس میں انفرادی پہلو زیادہ ہے):
امام ذہبی حضرت مطرف ابن عبد اللہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں انکے بارے میں پوچھا گیا کہ جب ھاج الناس ( قتل) کا فتنہ پیدا ہوا تو آپ اپنے گھر ہی میں رہے اور نہ ہی لوگوں کے لیے جماعت کے لیے نکلے اور نہ ہی جمعہ کے لیے۔
( سیر اعلام النبلاء ، ج:4 ،ص :191 ، الرسالہ)
تیسرا واقعہ:
امام ذہبی ہی لکھتے ہیں کہ عام الجوع الکبیر میں مصر اور اندلس میں قحط پڑا ۔اس طرح کا قحط اور وباء کبھی نہ تھی یہاں تک کہ مساجد کو بند کردیا گیا
( سیر اعلام النبلاء ، ج:18 ، ص :311 )
چوتھا واقعہ:
ابن عذاری مراکشی لکھتے ہیں:
افریقہ میں طاعون کی ایسی مرض پھیلی کہ:
خلت المساجد بالقيروان.
ترجمہ:, قیروان میں مساجد خالی ہوگیں۔
( البیان المغرب فی اخبار الاندلس والمغرب ،ج :1 ص :257 ، دار الثقافہ بیروت لبنان)
پانچواں واقعہ:
علامہ جمال الدین حنفی فرماتے ہیں:
مصر میں ایک ایسی وباء پھیلی کہ بہت سی جگہوں پہ اذانوں کو بند کردیا گیا ۔ اور بعض مشہور جگہوں پہ صرف ایک موذن آذان دیتا تھا۔ اکثر مساجد اور زوایا ( اکیڈمیز) بند کردی گئیں۔
( النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر والقاہرہ ، ج :10 ،ص :209 ، وزارۃ الثقافہ والارشاد القومی ، دار الکتب،مصر )
چھٹا واقعہ:
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
جب طاعون کا مرض پھیلا تو قاضی ابن ابی جرادہ حلبی حنفی نے حکم جاری کردیا کہ کوئی کسی میت پر حاضر نہ ہو اور نہ ہی جنازوں کا اعلان کیا جائے اور یہ پابندی موت کے خوف سے تھی تو اللہ تعالیٰ نے أنکو طاعون کی مرض سے محفوظ رکھا۔
( انباء الغمر بابناء العمر ، ج :3 ،ص :119 ، المجلس الاعلی للشون الاسلامیہ ، مصر)
اس قصے میں تو صراحت بھی اگی یہ لاک ڈاؤن ایک حنفی قاضی کی طرف سے تھا جس میں نماز جنازوں پہ پابندی لگادی گئی۔
ساتواں واقعہ:
محمد صباغ مالکی نے اپنی کتاب” تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام” میں سیلاب کے بارے میں کثیر قصے نقل کیے جس میں موت کے خوف سے مکہ شریف کو بند کیا گیا اور نمازوں کی جماعت حرم شریف میں معطل کردی۔
اٹھواں واقعہ:
امام ابن کثیر بدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان بچوں کی وجہ سے جنگ ہوئی اور یہ فتنہ اٹنا بڑا کہ جمعہ تک معطل رہا یہاں تک کہ دین و دنیا دونوں معطل ہوکر رہ گئیں۔
( البدایہ والنہایہ ، ج :11 ،ص :348 ، دار الفکر)
اسی طرح ابن کثیر اور ابن جوزی نے بعض قصے یہ بھی ذکر کیے جس میں مذہبی تعصب کی وجہ سے لوگ کو جمعہ اور نماز باجماعت پڑھنے سے روک دیا گیا۔
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:
فقوى جانب الحنابلة قوة عظيمة بحيث إنه كان ليس لأحد من الاشاعرة أن يشهد الجمعة ولا الجماعات.
( البدايه والنهايه ، ج :12 ،ص :66 )
نواں واقعہ:
اسی طرح کنز الدرر وجامع الغرر میں ہے کہ جب خلق قرآن کا مسئلہ ہوا تو علماء اپنے گھروں پہ چھپ گے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مساجد میں جانے سے خود کو منع کردیا۔
دسواں واقعہ:
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
827 ہجری کے سال کے شروع میں مکہ ایسی وباء پھیلی کہ أئمہ نے نمازیں پڑھانے سے منع کردیا کیونکہ کوئی پڑھنا والا نہ تھا۔۔ اور صرف ایک امام جماعت کرواتا اور اسکے ساتھ بھی صرف دو لوگ ہوتے۔
( انباء الغمر بأبناء العمر ، ج : 3 ،ص :326 )
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں یہ واقعات بھی ذکر کیے کہ جب لوگ اجتماعی دعاء کے لیے جمع ہوئے تو طاعون کی مرض اور بڑھ گئی اور اسی طرح حاجیوں کا استقبال کرنے کی وجہ سے بھی مرض بڑھتی گی۔۔( استغفر اللہ العظیم)
اسکے علاوہ بھی بہت سے قصے ہیں لہذا ہم صرف اسی پہ اکتفاء کرتے ہیں ۔۔۔
اور اسی تاریخ میں اس بات کی مثال بھی ملتی ہے کہ فقہائے کرام نے اس مسئلے کو بھی ڈسکس کیا کہ کیا متعدی مرض کی وجہ سے لوگوں کو مساجد میں جانے سے روکا جائے؟ انکے لیے قرنطینہ بنائے جائیں؟ کیا طاعون والی مرض میں صحیح بھی مریض کے حکم میں ہونگے یا نہیں؟
ان مسائل میں فقہائے کرام کے اختلاف کوجاننے کے لیے درج ذیل حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
نمبر 1:
فتح الباری سے باب الجذام کو کھول کر پڑھیں اس باب کا اختتام اسی بات پہ ہوا ہے کہ جذام والی مرض کے لوگوں کو مساجد سے روکا جائے یا نہ؟
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس رائے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے ۔
نمبر 2 :
حاشیہ ابن عابدین سے مطلب فی فشو الطاعون هل الصحيح في حكم المريض؟ وہاں بھی آپکو اختلاف ملے گا اور اس مسئلے کو کئ فقہائے کرام نے ڈسکس کیا۔۔
ایک غور طلب بات یہ کہ علامہ ابن عابدین کے عنوان میں تو صحیح والوں کا حکم بھی ڈسکس ہونے کی مثال مل گئی اور اس مسئلے کو بعض فقہائے مالکیہ نے بھی ڈسکس کیا ہے۔
نمبر 3:
شرح نووی علی صحیح مسلم میں فر من المجذوم والی حدیث کی شرح کے باب کو مکمل پڑھیں .
سؤال: جب کسی مسئلہ میں فقہائے کرام میں اختلاف ہوجائے تو تب عمل کسکی رائے پر ہوگا؟
جب فقہائے کرام کا اختلاف ہو جائے کسی مسئلہ میں اور پھر کسی ایک رائے کے ساتھ حاکم وقت کی رائے کی موافقت ہوجائے تو فقہائے کرام کے نزدیک عمل بالاتفاق اسی رائے پر ہوگا جسکو حاکم وقت نے اختیار کیا ہوگا اور اس مسئلے کو آپ قاعدہ فقہیہ ( حکم الحاکم او القاضی یرفع الخلاف ) کے تحت پڑھ سکتے ہیں اور مذاہبِ اربعہ کی کتب سے آپکو کافی مثالیں مل جائیں گی۔
اللہ رب العزت کے حضور دعاء کہ رب کریم کرونا وائرس اور اس جیسی دیگر موذی امراض کا خاتمہ فرماکر ہمیں دوبارہ سے حرمین شریفین و مساجد کی رونقوں سے مشرف فرمائے۔ اور بیماروں کو شفائے کاملہ عاجلہ عطاء فرمائے بمحبۃ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
آمین یارب العالمین
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔