أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُ‌ؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اگر آپ ان سے (ان کے مذاق اڑانے کے متعلق) سوال کریں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ ہم تو محض خوش طبعی اور دل لگی کرتے تھے آپ کہیے کہ کیا تم اللہ کا اور اس کی آیتوں کا اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر آپ ان سے (ان کے مذاق اڑانے کے متعلق) سوال کریں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ ہم تو محض خوش طبعی اور دل لگی کرتے تھے۔ آپ کہیے کہ کیا تم اللہ کا اور اس کی آیتوں کا اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے ! اب عذر نہ پیش کرو بیشک تم اپنے ایمان کے اظہار کے بعد کفر کرچکے ہو، اگر ہم تمہاری ایک جماعت سے (اس کی توبہ کی وجہ سے) درگزر کرلیں تو بیشک ہم دوسرے فریق کو عذاب دیں گے، کیونکہ وہ مجرم تھے (وہ کفر اور مذاق اڑانے پر اصرار کرتے تھے) (التوبہ : ٦٦۔ ٦٥ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں توہین کا لفظ کہنا کفر ہے خواہ توہین کی نیت ہو یا نہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے والے منافقین کے متعلق امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ نے حسب ذیل روایات بیان کی ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں : غزوہ تبوک کی ایک مجلس میں ایک شخص نے کہا : ہمارے قرآن پڑھنے والے جتنے پیٹ کے حریص ہیں اور جتنی باتوں میں جھوٹے ہیں اور مقابلہ کے وقت جتنے بزدل ہیں، اتنا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ اس مجلس میں دوسرے شخص نے کہا : تم نے جھوٹ بولا اور تم منافق ہو۔ میں ضرور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچائوں گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچ گئی اور قرآن نازل ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو دیکھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے پیچھے چل رہا تھا اور پتھروں سے اس کے پائوں زخمی ہو رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم تو محض خوش طبعی اور دل لگی کر رہے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرما رہے تھے : کیا تم اللہ کا اور اس کی آیتوں کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے تھے۔

قتادہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک کے سفر میں جا رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے کچھ منافق تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا : اس شخص کو یہ امید ہے کہ یہ شام کے محلات اور قلعے فتح کرلے گا حالانکہ یہ بہت بعید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات سے مطلع کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان سواروں کو روکو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم نے اس اس طرح کہا تھا۔ انہوں نے کہا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم تو محض خوش طبعی اور دل لگی کرتے تھے۔

مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : ایک منافق نے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ حدیث سناتے ہیں کہ فلاں شخص کی اونٹنی، فلاں وادی میں، فلاں فلاں دن ہے، یہ غیب کو کیا جانیں ! (جامع البیان ج ١٠ ص ٢٢٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔

علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : منافقین نے یہ کلماتِ کفریہ سنجیدگی سے کہے تھے یا مذاق سے اور جس طرح بھی انہوں نے یہ کلمات کہے ہوں یہ کفر ہے۔ کیونہ اس میں ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مذاق سے کلمہ کفریہ کہنا بھی کفر ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٨ ص ١٢٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔

نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کوئی ایسا کلمہ کہنا جو عرف میں توہین کے لیے متعین ہو وہ کفر ہے اور اس کا قائل واجب القتل ہے۔ خواہ اس نے توہین کی نیت کی ہو یا نہیں۔ کیونکہ منافقین نے کہا : ہم نے توہین کی نیت سے ایسا نہیں کہا تھا۔ مذاق سے کہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اب بہانے نہ بنائو تم ایمان کا اظہار کرنے کے بعد کفر کرچکے ہو۔

علامہ قرطبی نے لکھا ہے : یہ تین آدمی تھے۔ دو نے مذاق اڑایا اور ایک ان کی بات پر ہنسا تھا۔ جو آدمی ہنسا تھا وہ صدق دل سے نادم اور تائب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا۔ اس نے دعا کی تھی کہ اللہ اس کو شہادت عطا فرمائے اور اس کی قبر کا کسی کو پتا نہ چلے۔ وہ جنگ یمامہ میں شہید ہوگیا اور مذاق اڑانے والے کفر اور نفاق پر قائم رہے اور مستحق عذاب ہوئے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٨ ص ١٢٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 65