اَلَّذِيۡنَ يَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِيۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فِى الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ اِلَّا جُهۡدَهُمۡ فَيَسۡخَرُوۡنَ مِنۡهُمۡؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنۡهُمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 79
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَّذِيۡنَ يَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِيۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فِى الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ اِلَّا جُهۡدَهُمۡ فَيَسۡخَرُوۡنَ مِنۡهُمۡؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنۡهُمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
بیشک جو (منافق) خوشی سے صدقہ دینے والے مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں اور ان کو جن کے پاس (صدقہ کے لیے) اپنی محنت کی مزدوری کے سوا اور کچھ نہیں ہے سو وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ ان کو ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو (منافق) خوشی سے صدقہ دینے والے مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں، اور ان کو جن کے پاس (صدقہ کے لیے) اپنی محنت مزدوری کے سوا اور کچھ نہیں ہے، سو وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ ان کو ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبہ : ٧٩)
صحابہ کرام کے صدقات پر منافقین کے طعنے :
حضرت ابومسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں جب ہم کو صدقہ دینے کا حکم دیا گیا تو ہم مشقت کرکے صدقہ لاتے تھے۔ ابوعقیل نصف صاع (دو کلو گرام) لے کر آئے اور کوئی انسان اس سے زیادہ لے کر آتا تو منافقین نے کہا : بیشک اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے مستغنی ہے اور جو شخص زیادہ لے کر آیا ہے، وہ محض دکھاوے کے لیے لے کر آیا ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی : بیشک جو (منافق) خوشی سے صدقہ دینے والے مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٦٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٨) ۔
عمرو بن ابی سلمہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صدقہ کرو کیونکہ میں ایک لشکر بھیجنا چاہتا ہوں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس چار ہزار درہم ہیں۔ میں دو ہزار اللہ کو قرض دیتا ہوں اور دو ہزار اپنے عیال کے لیے رکھتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو تم نے اللہ کے لیے دیئے، اللہ اس میں بھی برکت دے اور جو تم نے اپنے عیال کے لیے رکھ لیے، اللہ اس میں بھی برکت دے۔ تب ایک انصاری نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس دو صاع کھجوریں ہیں۔ ایک صاع میں اپنے رب کے لیے دیتا ہوں اور ایک صاع میں اپنے لیے رکھ لیتا ہوں۔ تب منافقین نے طعنہ دیتے ہوئے کہا : ابن عوف نے محض ریاکاری کے لیے صدقہ دیا ہے اور کہا : اس شخص کے ایک صاع سے اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ (جامع البیان جز ١٠، ص ٢٤٩، تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٦ ص ١٨٥٠، اسباب النزول للواحدی ص ٢٦٠، تفسیر ابن کثیر ج ٢، ص ٤٢١ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 79