لَـيۡسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَى الۡمَرۡضٰى وَلَا عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ مَا يُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖؕ مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 91
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَـيۡسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَى الۡمَرۡضٰى وَلَا عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ مَا يُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖؕ مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ ۞
ترجمہ:
کمزوروں اور بیماروں اور جو لوگ خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، ان پر (جہاد میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے) کوئی حرج نہیں ہے، جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اخلاص سے عمل کریں، نیکی کرنے والوں پر (طعنہ کرنے کی) کوئی راہ نہیں ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کمزوروں اور بیماروں اور جو لوگ خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ان پر (جہاد میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے) کوئی حرج نہیں ہے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اخلاص سے عمل کریں، نیکی کرنے والوں پر (طعنہ کرنے کی) کوئی راہ نہیں ہے اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے (التوبہ : ٩١)
معذورین کی اقسام :
قرآن مجید کا اسلوب ہے ایک چیز بیان کرکے پھر اس کی ضد کو بیان کرنا۔ اس اسلوب پر پہلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو جھوٹے عذر پیش کرتے تھے اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کو حقیقی اعذار لاحق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : ان سے جہاد کے احکام ساقط ہیں۔ ان معذورین کی اللہ تعالیٰ نے تین قسمیں بیان فرمائیں :
(١) اول وہ ہیں جو بدن کے اعتبار سے تو تندرست ہوں لیکن بوڑھے ہونے کی وجہ سے کمزور ہوں۔ یا وہ لوگ جو اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے کمزور اور نحیف ہوں۔
(٢) ثانی وہ ہیں جو بیمار ہوں۔ ان میں اندھے، لنگڑے، لولے اور اپاہج بھی داخل ہیں۔
(٣) ثالث وہ ہیں جو طاقتور اور تندرست ہوں لیکن ان کے پاس سواری اور زاد راہ نہ ہو جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کے سفر پر نہ جاسکیں۔
جہاد اور نماز میں معذورین کے متعلق احادیث :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ (تبوک) کے دوران فرمایا : ہم مدینہ میں کچھ لوگوں کو چھوڑ آئے ہیں۔ ہم جس وادی اور گھاٹی بھی گئے وہ ہمارے ساتھ رہے۔ وہ عذر کی وجہ سے نہیں جاسکے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٣٨، مطبوعہ دار ارقم بیروت) ۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم مدینہ میں ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہو کہ تم نے جو سفر بھی کیا یا جو خرچ بھی کیا یا تم جس وادی بھی گئے وہ تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہ نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ ہمارے ساتھ کیسے ہوں گے حالانکہ وہ مدینہ میں ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ عذر کی سجہ سے نہیں جاسکے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٥٠٨، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٢٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٦٤ ) ۔
ابن الکلبی نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمرو بن المجموح (رض) انصار میں سے آخر میں اسلام لائے تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو غزوہ بدر میں شرکت کے لیے بلایا اور انہوں نے دیگر صحابہ کے ساتھ غزوہ بدر کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تو ان کے بیٹوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی وجہ سے ان کو منع کیا کیونکہ ان کی ٹانگ میں شدید لنگ تھا۔ پھر جنگ احد کا دن آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا : تم لوگوں نے مجھے غزوہ بدر کی طرف نکلنے نہیں دیا تھا۔ سو اب تم مجھے غزوہ احد کی طرف نکلنے سے منع نہیں کرنا۔ انہوں نے کہا : اللہ نے آپ کو جہاد میں شرکت سے معذور رکھا ہے۔ پھر انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے بیٹے مجھے اس لنگ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں جانے سے منع کرتے ہیں اور اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ میں اپنی لنگڑی ٹانگ کے ساتھ جنت میں چلوں گا۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کو اللہ نے جہاد سے معذور قرار دیا ہے اوت تم پر جہاد فرض نہیں ہے اور ان کے بیٹوں سے کہا : تم پر کوئی حرج نہیں ہے اگر تم ان کو منع نہ کرو۔ شاید کہ اللہ انہیں شہادت عطا فرمائے۔ پھر حضرت عمرو بن الجموح نے اپنے ہتھیاراٹھائے اور احد کے لیے روانہ ہوگئے اور دعا کی : اے اللہ ! مجھے شہادت عطا فرما ! اور مجھے اپنے اہل کی طرف نامراد واپس نہ کر۔ اور جب یہ جنگ احد میں شہید ہوگئے تو ان کی بیوی ہند بنت عمرو جو حضرت جابر کی پھوپھی تھیں وہ آئیں اور انہوں نے ان کو اور اپنے بھائی عبداللہ بن عمرو بن حرام (حضرت جابر کے والد) کی لاشوں کو اٹھایا اور ان دونوں کو ایک قبر میں دفن کیا گیا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے۔ بیشک میں نے اس کو دیکھا وہ اپنی لنگڑی ٹانگ کے ساتھ جنت میں چل رہا تھا۔ (اسدالغابہ ج ٤ ص ١٩٦۔ ١٩٥، السنن الکبریٰ للبیہقی ج ٩، ص ٢٤، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٣ ص ٢٤٦، اتحاف السادۃ المتقین ج ١٠، ص ٣٣٢) ۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے مسجد میں کوئی لے جانے والا نہیں ہے۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اس کو گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت دی جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رخصت دے دی۔ جب وہ واپس چلا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلایا اور پوچھا : کیا تم اذان سنتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ! فرمایا : پھر تم اذان پر لبیک کہو۔ (یعنی مسجد میں جا کر نماز پڑھو) ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٥٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٨٥٠ ) ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : ہم یہ جانتے تھے کہ نماز کو صرف منافق ہی ترک کرتا تھا جس کا نفاق معلوم ہو، یا وہ بیمار ہو اور بیشک ایک بیمار شخص دو آدمیوں کے درمیان سہارے سے چلتا ہوا نماز پڑھنے کے لیے آتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سنن الہدیٰ کی تعلیم دی اور جس مسجد میں اذان دی گئی ہو اس میں نماز پڑھنا سنن الہدیٰ میں سے ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٥٤، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ) ۔
اللہ تعالیٰ کے لیے نصیحت کا معنی : اس آیت میں فرمایا ہے : جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے نصیحت کریں۔ نصیحت کا معنی ہے اخلاص۔ (اساس البلاغہ للزمحشری ج ٢ ص ٢٧٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ) ۔
حضرت تمیم داری (رض) عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دین نصیحت ہے۔ ہم نے پوچھا : کس کے لیے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے لیے۔ اس کی کتاب کے لیے۔ اسکے رسول کے لیے۔ ائمہ مسلمین کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩٤٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٩٨) ۔
اللہ کے لیے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ بندہ اللہ پر ایمان لائے۔ اس سے شریک کی نفی کرے۔ اس کی صفات میں الحادنہ کرے (اس کی طرف ایسی صفت منسوب نہ کرے جو اس کی شان کے لائق نہ ہو) اور تمام عیوب اور نقائص سے اللہ تعالیٰ کی براءت بیان کرے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے لیے محال مانے۔ اس کے احکام کی اطاعت کرے اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے۔ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے محبت اور اس کی وجہ سے بغض رکھے۔ اس کی اطاعت کرنے والوں سے دوستی اور اس کی نافرمانی کرنے والوں سے دشمنی رکھے۔ اس کے منکروں سے جہاد کرے۔ اس کی نعمتوں کا اعتراف کرے اور اس کا شکر بجا لائے۔ اور تمام امور میں اس کے ساتھ اخلاص رکھے۔
کتاب اللہ کے لیے نصیحت کا معنی : اللہ کی کتاب کے لیے نصیحت کا یہ معنی ہے کہ بندہ اس پر ایمان رکھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور مخلوق کا کوئی کلام اس کے مشابہ نہیں۔ اور مخلوق میں سے کوئی شخص اس کلام کی مثل لانے پر قادر نہیں ہے۔ اس کی آیتوں میں زیادتی یا کمی محال ہے۔ اس کی تعظیم کرے اور اس کی اس طرح تلاوت کرے جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ مخالفین اسلام اس پر جو اعتراض کرتے ہیں، ان کے جواب دے اور متبدعین جو اس کی آیت کی باطل تاویل کرتے ہیں ان کا رد کرے۔ اس کے علوم اور اس کی مثالوں کو سمجھے۔ اس کے مواعظ (نصیحتوں) میں غور و فکر کرے۔ اس کے عجائب میں تدبر کرے۔ عقائدِ اسلام پر اس سے دلائل تلاش کرے۔ اسی آیات سے احکامِ شرعیہ مستنبط کرے۔ اس کے عموم، خصوص اور ناسخ و منسوخ سے بحث کرے۔ اس کے اوامر پر عمل کرے اور نواہی سے اجتناب کرے۔ اس کے علوم کی نشرو اشاعت کرے اور لوگوں کو اس کی دعوت دے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نصیحت کا معنی : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نصیحت کا معنی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تصدیق کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پاس سے جو کچھ لے کر آئے اس کو ماننا اور امر اور نہی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوستوں سے دوستی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ کو زندہ کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کی نشرواشاعت کرنا۔ اور اس سے اعتراضات کو دور کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے فقہی احکام نکالنا اور ان کی طرف عمل کی دعوت دینا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث کی حجیت بیان کرنا اور ان کی نشرواشاعت کرنا۔ حدیث پڑھتے وقت آداب کا لحاظ رکھنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور آداب کو اپنانا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سے عقیدت رکھنا۔ مبتدعین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث کی جو باطل تاویلات کی ہیں ان کا رد کرنا۔ احادیث صحیحہ، حسنہ، ضعیفہ اور موضوعہ کو الگ الگ پہنچاننا اور ان کے مراتب اور درجات کی رعایت کرنا۔
ائمہ مسلمین کے لیے نصیحت کا معنی : ائمہ مسلیمن کے لیے نصیحت کا معنی یہ ہے : حق بات پر ان کی معاونت کرنا اور اس میں ان کی اطاعت کرنا۔ ان کی خطا پر نرمی سے ان کو متوجہ کرنا۔ جن سے وہ غافل ہوں اس کی ان کو خبر دینا۔ جن مسلمانوں کے حقوق ان کو مستحضر نہ ہوں وہ ان کو یاد دلانا۔ ان کی بیعت پر قائم رہنا اور ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا۔ ان کی اطاعت پر لوگوں کو مائل کرنا۔ ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا اور ان کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہونا۔ ان کو زکوٰۃ اور عشر لا کردینا۔ اگر ان سے ظلم یا کوئی برائی ظاہر ہو تو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے سے گریز کرنا الایہ کہ العیاذ باللہ ان سے علی الاعلان کفر صادر ہو۔ ان کے سامنے ان کی جھوٹی تعریف نہ کرنا۔ ان کو نیکی کی تلقین کرنا۔ یہ تمام امور اس وقت ہیں جب ائمہ مسلمین سے خلفاء اور حکام مراد ہوں اور اگر ائمہ مسلمین سے علماء اور مجتہدین مراد ہوں تو ان کے لیے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ ان کی روایت کردہ احادیث کو ماننا اور ان کے احکام اور فتاویٰ کی تقلید کرنا۔ اور ان کے ساتھ حسن ظن رکھنا۔
عام مسلمانوں کے لیے نصیحت کا معنی : عامتہ المسلمین کے لیے نصیحت کا معنی یہ ہے : دنیا اور آخرت میں ان کی سعادت اور فلاح پر رہنمائی کرنا۔ ایذاء دینے والی چیزوں کو ان سے دور کرنا۔ جن شرعی احکام سے وہ لاعلم ہیں وہ ان کو بتانا اور ان میں ان کی قول اور فعل سے مدد کرنا۔ ان کے عیوب کو چھپانا۔ اور مضر چیزوں کو ان سے دور کرنا۔ اور مفید چیزوں کو ان کے لیے مہیان کرنا۔ نرمی اور اخلاص کے ساتھ ان کو نیکی کا حکم دینا اور ان کو برائی سے روکنا۔ ان کے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم کرنا۔ ان سے حسد نہ کرنا۔ نہ دھوکا دینا۔ ان کے لیے اسی اچھی چیز کو پسند کرنا جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہو اور اس بری چیز کو ان کے لیے ناپسند کرنا جس کو وہ اپنے لیے ناپسند کرتا ہو۔ ان کی جان، مال اور عزت سے ضرر اور برائی کو دور کرنا۔ اور ان امور کی طرف ان کو بھی متوجہ کرنا۔ ہر شخص پر اس کی طاقت کے مطابق نصیحت کرنا لازم ہے۔ جب کہ اس کو یہ علم ہو کہ اس کی نصیحت قبول کی جائے گی اور اس کے حکم کی اطاعت کی جائے گی اور اس کو یہ اطمینان ہو کہ نصیحت کرنے کی وجہ سے اس کو کوئی ناگوار صورت حال پیش نہیں آئے گی۔ اور اگر اس کو یہ خطرہ ہو کہ نصیحت کرنے کی وجہ سے وہ کسی مصیبت میں پڑجائے گا تو پھر نصیحت کرنا اس پر لازم نہیں ہے۔ حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پر بیعت کی کہ وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے اور ہر مسلمان کے لیے نصیحت کریں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٢٥ )
بڑے سے بڑا نیک بھی اللہ کی بخشش اور اس کی رحمت سے مستغنی نہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نیکی کرنے والوں پر (طعنہ کرنے کی) کوئی راہ نہیں اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بخشش اور رحمت کا تعلق تو برائی کرنے والوں اور گنہ گاروں کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ۔ اس کے دو جواب ہیں : اول یہ کہ بخشش اور رحمت کا تعلق برائی کرنے والوں اور گنہ گاروں کے ساتھ ہے بشرطیکہ وہ توبہ کرلیں اور یہ محذوف ہے اور اس کا تعلق محسنین (نیک کرنے والوں) کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنی نیکیوں کی وجہ سے اپنے اوپر دنیا میں مذمت کا اور آخرت میں عذاب کا دروازہ بند کردیا ہے۔ لہٰذا ان کی مذمت کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نیکی کرنے والے خواہ نیکیوں کی انتہاء کو پہنچ جائیں وہ اپنے اور اللہ کے درمیان کسی گناہ سے اور اپنے اور بندوں کے درمیان کسی برائی سے خالی نہیں ہوتے۔ لیکن اگر وہ گناہ کبیرہ نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے صغیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان پر رحم فرماتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے بچو جن سے تم کو منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے صغیرہ گناہوں کو مٹا دیں گے۔ (النساء : ٣١) نیز حدیث میں ہے : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بنی آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٩٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥١، مسند احمد ج ٣ ص ١٩٨، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٧٣، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٢٩٢٢، المستدرک ج ٤ ص ٢٤٤، الکامل لابن عدی ج ٥ ص ١٨٥٠، اتحاف السادۃ المتقین ج ١ ص ٤٠٩، ج ٨ ص ٥٩٦، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٣٤١، کنزالعمال رقم الحدیث : ١٠٢٢٠ ) ۔ اس حدیث سے ہماری اس بات کی تائید ہوگئی کہ کوئی شخص کتنا بڑا نیکی کرنے والا کیوں نہ ہو، وہ کسی نہ کسی درجہ میں گنہ گار ہے۔ اور وہ توبہ کرنے سے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت سے مستغنی نہیں ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 91