وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 100
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
ترجمہ:
اور مہاجرین اور انصار میں سے (نیکی میں) سبقت کرنے والے اور سب سے پہلے ایمان لانے والے اور جن مسلمانوں نے نیکی میں ان کی اتباع کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور مہاجرین اور انصار میں سے (نیکی میں) سبقت کرنے والے اور سب سے پہلے ایمان لانے والے اور جن مسلمانوں نے نیکی میں ان کی اتباع کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے (التوبہ : ١٠٠)
مہاجرین اور انصار میں سے سابقین اولین کے مصادیق میں اقوال :
اس آیت میں مہاجرین اور انصار میں سے جو سابقین اولین ہیں اس کا مصداق کون سے صحابہ ہیں، اس میں متعدد اقوال ہیں :
امام ابن جریر نے متعدد اسانید کے ساتھ عامر اور شعبی سے روایت کیا ہے کہ یہ وہ صحابہ ہیں جو بیعت رضوان کے موقع پر حاضر تھے۔ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری، سعید بن مسیب، ابن سیرین اور قتادہ سے روایت ہے کہ یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دونوں قبلوں بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی۔ سو وہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ (جامع البیان جز ١١، ص ١١۔ ١٠، تفسیر ابن ابی حاتم ج ٦، ص ١٨٦٨ ) ۔
امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : اس آیت کے مصداق میں چھ قول ہیں :
(١) حضرت ابوموسیٰ اشعری، سعید بن مسیب، ابنِ سیرین اور قتادہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی۔
(٢) شعبی نے کہا : یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت رضوان کی تھی اور یہ بیعت حدیبیہ ہے۔
(٣) عطاء بن ابی رباح نے کہا : ان سے مراد اہل بدر ہیں۔
(٤) محمد بن کعب القرظی نے کہا : ان سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اصحاب ہیں۔ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں سبقت حاصل ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اصحاب کی مغفرت کردی ہے اور ان کے لیے جنت کو واجب کردیا ہے۔ خواہ وہ نیکوکار ہوں یا خطاکار۔
(٥) علامہ ماوردی نے کہا : ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے موت اور شہادت میں سبقت کی اور اللہ کے ثواب کی طرف سبقت کی۔
(٦) قاضی ابویعلیٰ نے کہا : ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جو ہجرت سے پہلے اسلام لائے۔ (زاد المسیر ج ٣، ص ٤٩١۔ ٤٩٠، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ) ۔
تاہم اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ ان تمام اقسام کو اس آیت کا مصداق قرار دیا جائے۔
ابومنصور بغدادی نے کہا کہ ہمارے اصحاب کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ میں افضل خلفاء اربعہ ہیں۔ پھر عشرہ مبشرہ میں سے باقی چھ، (حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) اجمعین) (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٤٧)
پھر اصحابِ بدر، پھر اصحابِ احد، پھر حدیبیہ میں اہل بیعت رضوان۔ (فتح القدیر ج ٢ ص ٥٦٣، مطبوعہ دارالوفاء بیروت، ١٤١٨ ھ) ۔
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : میرے نزدیک اس آیت کا مصداق وہ شخص ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت میں سب سے سابق اور سب سے اول ہو۔ اور وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں۔ کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور ہر مقام اور ہر جگہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوبکر کا مقام دوسرے صحابہ سے بہت زیادہ بلند ہے اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) اگرچہ مہاجرین اولین میں سے ہیں لیکن انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد ہجرت کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہمات کو انجام دینے کے لیے مکہ میں رہے لیکن ہجرت میں سبقت کرنے کا شرف حضرت ابوبکر (رض) کو حاصل ہوا۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت میں بھی سبقت کا شرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو حاصل ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦، ص ١٣٨۔ ١٣٧، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)
مہاجرین اور انصار میں سے ایمان میں سبقت کرنے والوں کی تفصیل :
امام ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں : اس میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت خدیجہ (رض) کے بعد سب سے پہلے کون اسلام لایا۔ جب کہ اس پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے حضرت خدیجہ (رض) اسلام لائیں۔ بعض علماء نے کہا : سب سے پہلے جو ایمان لائے اور جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی وہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) ہیں۔ یہ حضرت جابر کا قول ہے اور امام ابن اسحٰق نے کہا : حضرت علی دس سال کی عمر میں اسلام لائے تھے۔ اور بعض نے کہا : حضرت خدیجہ (رض) کے بعد جو سب سے پہلے اسلام لائے وہ حضرت صدیق اکبر (رض) ہیں۔ اور یہ حضرت ابن عباس، ابراہیم نخعی اور شعبی کا قول ہے۔ اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ (رض) اسلام لائے اور یہ زہری اور عروہ بن الزبیر کا قول ہے اور اسحٰق بن ابراہیم حنظلی نے ان اقوال کو جمع کیا ہے۔ انہوں نے کہا : مردوں میں سبے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اسلام لائے اور عورتوں میں ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) اور بچوں میں حضرت علی (رض) اور غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ (رض) ۔ امام ابن اسحٰق نے کہا کہ جب حضرت ابوبکر (رض) اسلام لائے تو انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دعوت دی اور حضرت ابوبکر قریش میں عمدہ نسب کے تھے۔ نرم مزاج تھے۔ تاجر تھے اور ان کی خوش اخلاقی بہت مشہور تھی۔ لوگ ان کے پاس آتے تھے اور متعدد معاملات میں ان سے الفت رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ ان کے حسن معاملہ کو جانتے تھے۔ حضرت ابوبکر کو جس شخص پر اعتماد ہوتا وہ اس کو اسلام کی دعوت دیتے۔ لہٰذا حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ان کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور نماز پڑھ لی تو حضرت ابوبکر ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر آئے۔ یہ وہ آٹھ شخص تھے جنہوں نے اسلام کی طرف سبقت کی تھی۔ پھر لوگ پے در پے اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اور رہے انصار میں سے سبقت کرنے والے تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ العقبہ میں بیعت کی تھی۔ العقبۃ الاولیٰ (مکہ کے قریب ایک گھاٹی تھی۔ مدینہ سے لوگ حج کے لیے آتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس گھاٹی میں تبلیغ فرماتے۔ پہلی بار چھ شخص مسلمان ہوئے تھے۔ ان کو اصحاب العقبۃ الاولیٰ کہا جاتا ہے) میں چھ شخص مسلمان ہوئے تھے اور دوسرے سال چھ اور آ کر مسلمان ہوئے۔ یہ بھی اصحاب العقبۃ الاولیٰ ہیں۔ ان کے بعد ستر (٧٠) شخص مسلمان ہوئے تھے۔ یہ اصحاب العقبۃ الثانیۃ ہیں۔ حضرت مصعب بن عمیر ان کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ پھر ان کے ساتھ انصار کے مردوں، عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اسلام لے آئی۔ (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٧١، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٤ ھ، اللباب فی علوم الکتاب ج ١٠ ص ١٨٧۔ ١٨٦، مطبوعہ بیروت) ۔ مہاجرین سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاطر اپنی قوم، اپنے قبیلہ اور اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور انصار سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دشمنانِ اسلام کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو مدینہ میں پناہدی۔ امام محمد بن سعد متوفی ٢٣٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایامِ حج میں تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ سے آئے ہوئے چھ شخص ملے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا۔ کیا تم یہود کے حلیف ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی اور ان پر اسلام پیش کیا۔ اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی۔ سو وہ مسلمان ہوگئے اور یہ بنو النجار میں سے اسعد بن زرارہ اور عوف بن الحارث اور بنو زریق میں سے رافع بن مالک اور بنو سلمہ سے قطبہ بن عامر بن حدیدہ اور بنو حرام میں سے عقبہ بن عامر بن نابی اور بنو عبید بن عدی بن سلمہ سے جابر بن عبداللہ بن رٹاب تھے اور ان سے پہلے مدینہ سے آ کر کوئی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ ان پر سب کا اجماع ہے۔ پھر یہ چھ صحابہ مدینہ گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی۔ پس جس نے اسلام لانا تھا وہ اسلام لے آیا۔ ان دونوں انصار کے ہر گھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس کے دوسرے سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس گھاٹی میں ان چھ کے ساتھ چھ اور نفر آئے۔ ان میں بنی عوف بن الخزرج میں سے عبادہ بن الصامت، اور یزید بن ثعلبہ اور بنو عامر سے عباس بن عبادہ بن نصلہ تھے اور بنو زریق میں سے ذکوان بن عبد قیس تھے۔ یہ دس افراد خزرج میں سے تھے اور اوس میں سے دو شخص تھے۔ ابوالہیشم بن النیہان، یہ بنو عبدالاشہل کے حلیف تھے اور بنو عمرو بن عوف میں سے عویم بن ساعدہ تھے۔ یہ سب مسلمان ہوگئے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پر بیعت کی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شیرک نہیں کریں گے اور نہ چوری کریں گے نہ زنا کریں گے اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گے اور نہ کسی پر بہتان لگائیں گے اور نیک کام میں کسی کی مخالف نہیں کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم نے اس عہد کو پورا کیا تو تمہارے لیے جنت ہے اور جس نے ان ممنوع کاموں میں سے کوئی کام کرلیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ وہ چاہے تو ان کو معاف کر دے اور چاہے تو ان کو عذاب دے۔ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا۔ وہ مدینہ چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا اور حضرت اسعد بن زرارہ مدینہ میں مسلمانوں کو جمہ کی نماز پڑھاتے تھے اور یہ سب سے پہلے جمعہ کی نماز تھی۔ یہ بارہ صحابہ اصحابِ عقبہ اولیٰ ہیں اور انصار میں سے سابقین ہیں ان کے بعد ستر نفر مدینہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مسلمان کیا۔ یہ اصحاب عقبہ ثانیہ ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ١٧١۔ ١٧٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، ١٤١٨ ھ)
مہاجرین اور انصار کے فضائل :
جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات ظاہری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اختیار کی بایں طور کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گفتگو سنی یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر یا حضرت کی کسی مجلس میں رہا خواہ یہ صحبت ایک لحظہ کی ہو اور وہ شخص ایمان پر ہی تادم مرگ قائم رہا حتیٰ کہ حالت ایمان میں اس کی موت آئی ہو وہ شخص صحابی ہے۔ ان میں سے مہاجرین وہ ہیں جنہوں نے مکہ سے ہجرت کی اور انصار وہ ہیں جنہوں نے مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو پناہ دی۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا نہ کہو۔ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خیرات کرے تو وہ ان کے دیئے ہوئے ایک مد یا نصف (ایک کلو گرام یا نصف) کے برابر نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤١، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٥٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦١، مسند احمد ج ٣ ص ١١، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ١٠٨٧، ١١٩٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٢٥٣ ) ۔
حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو اپنے طعن کا نشانہ نہ بنائو۔ جس نے ان سے محبت رکھی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء دی اس نے مجھ کو ایذاء دی اور جس نے مجھ کو ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی عنقریب وہ اس کو پکڑ لے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٢، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٢٥٦، مسند احمد ج ٤ ص ٨٧، حلیتہ الاولیاء ج ٨ ص ٢٨٧) ۔
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا کہتے ہیں تو کہو تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٦، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٣٦٢، تاریخ بغداد ج ١٣ ص ١٩٥، تہذیب الکمال ج ١٢ ص ٣٢٧ ) ۔
حضرت کعب بن عجرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کے سامنے مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم میں ایک جماعت انصار کی تھی۔ ایک جماعت مہاجرین کی اور ایک جماعت بنو ہاشم کی۔ ہم میں یہ بحث ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کون زیادہ قریب ہے اور کون آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ محبوب ہے۔ ہم نے کہا : ہمارا انصار کا گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں سے لڑے تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیادہ قریب اور زیادہ محبوب ہیں۔ اور ہمارے برادر مہاجرین نے کہا : ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی اور ہم نے اپنے خاندان، اہل و عیال اور اموال کو چھوڑ دیا اور جن معرکوں میں تم حاضر رہے ان میں ہم بھی حاضر تھے تو ہم اور لوگوں کی بہ نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیادہ قریب اور زیادہ محبوب ہیں۔ اور ہمارے برادر بنو ہاشم نے کہا : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان سے ہیں۔ اور جن مواقع پر تم حاضر تھے ان میں ہم بھی حاضر تھے تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیادہ قریب ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیادہ محبوب ہیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریک لاے اور ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : تم کیا کہہ رہے تھے ؟ ہم (گروہ انصار) نے اپنی بات دہرائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔ تمہاری بات کو کون مسترد کرسکتا ہے ! پھر ہمارے برادر مہاجرین نے اپنی بات دہرائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انہوں نے سچ کہا۔ ان کی بات کو کون مسترد کرسکتا ہے ! پھر ہمارے برادر بنو ہاشم نے اپنی بات دہرائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انہوں نے سچ کہا۔ ان کی بات کو کون مسترد کرسکتا ہے ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہارے درمیان فیصلہ نہ کروں ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہمارے ماں باپ فدا ہوں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے انصار کے گروہ ! میں صرف تمہارا بھائی ہوں، تو انہوں نے کہا : اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم ! ہم بازی لے گئے۔ اور رہے تم اے گروہ مہاجرین ! تو میں صرف تم میں سے ہوں۔ تو انہوں نے کہا : اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم ہم جیت گئے۔ اور رہے تم اے بنو ہاشم ! تو تم مجھ سے ہو اور میری طرف ہو۔ تو ہم سب کھڑے ہوگئے اور ہم سب راضی تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحسین کرتے تھے۔ (المعجم الکبیر ج ١٩ ص ١٣٣، حافظ الہیشمی نے کہا : میں اس حدیث کے ایک راوی کو نہیں پہچانتا، باقی راوی ثقہ ہیں اور بعض میں اختلاف ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٦٣٧٢، طبع جدید دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ) ۔
حضرت مسلمہ بن مخلد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مہاجرین عام لوگوں سے چالیس سال پہلے (جنت کی) نعمتوں میں ہوں گے اور لوگ حساب میں گرفتار ہوں گے۔ الحدیث۔ (المعجم الکبیر ج ١٠، ص ٤٣٨،حافظ الہیشمی نے کہا : اس کا ایک راوی عبدالرحمن بن مالک ہے۔ اس کو میں نہیں پہچانتا اور باقی راوی ثقہ ہیں۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٦٣٧٢) ۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایمان کی علامت انصار سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی علامت انصار سے بغض رکھنا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠١٩) ۔
حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انصار سے صرف مومن محبت رکھتا ہے اور ان سے صرف منافق بغض رکھتا ہے۔ پس جو ان سے محبت کرے گا تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٨٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٦٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٩٠٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٣، مسند احمد ج ٤ ص ٢٨٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٢٧٢، تاریخِ بغداد ج ٢ ص ٢٤١، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٩٦٧، مسند ابن الجعد رقم الحدیث : ٤٧٩)
اللہ کی رضا اس پر موقوف ہے کہ مہاجرین اور انصار کی نیکیوں میں ان کی اتباع کی جائے :
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور جن مسلمانوں نے نیکی میں ان کی اتباع کی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ جو مسلمان مہاجرین اور انصار کے لیے جنت اور رحمت کی دعا کرتے ہیں اور ان کے محاسن بیان کرتے ہیں اور دوسری روایت یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت تک کے جو مسلمان مہاجرین اور انصار کے دین اور ان کی نیکیوں میں ان کی اتباع کرتے ہیں۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو ان کی اتباع کرے وہ اللہ کے راضی کرنے کے مرتبہ اور ثواب اور جنت کا اس وقت مستحق ہوگا جب وہ نیکی میں مہاجرین اور انصار صحابہ کی اتباع کرے گا اور احسان سے مراد یہ ہے کہ وہ ان صحابہ کے حق میں نیک کلمات کہے اور ان کے محاسن بیان کرے اس لیے جو شخص صحابہ کرام کے متعلق نیک کلمات نہیں کہے گا وہ اللہ کی رضا کے مرتبہ اور جنت کا مستحق نہیں ہوگا۔ کیونکہ ایمان والے صحابہ کرام کی تعظیم میں بہت مبالغہ کرتے ہیں اور اپنی زبانوں پر کوئی ایسا کلمہ نہیں لاتے جو ان کی شان اور ان کے مقام کے نامناسب ہو۔ حافظِ ابن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : ان لوگوں پر افسوس ہے جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور ان کو برا کہتے ہیں۔ خاص طور پر اس صحابی کو جو سید الصحابہ ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں اور سب سے برتر اور خلیفہ اعظم ہیں۔ یعنی حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ (رض) ۔ کیونکہ رافضی افضل الصحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور ان کو برا کہتے ہیں۔ اور جب یہ لوگ ان ذوات قدسیہ کو برا کہیں گے جن سے اللہ راضی ہوگیا تو ان کا قرآن پر ایمان کیسے رہے گا اور رہے اہلسنت تو وہ ان سے راضی ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور اس کو برا کہتے ہیں جس کو اللہ اور اس کا رسول برا کہتے ہیں۔ اللہ کے دوستوں سے دوستی رکھتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ وہ متبع بالسنت ہیں۔ مبتدع نہیں ہیں اور وہی حزب اللہ ہیں اور فلاح پانے والے ہیں۔ (تفسری ابن کثیر ج ٢ ص ٤٣٠۔ ٤٢٩، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ) ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت عطا فرمائے گا اور اس سے راضی ہوگا، جو مہاجرین اور انصار کی اتباع بالاحسان کرے گا اور ان کے متعلق نیک کلمات کہے گا۔ سو جس کو جنت اور اللہ کی رضا چاہیے وہ مہاجرین اور انصار صحابہ کی نیکی میں اتباع کرے اور ان کے محاسن بیان کرے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ مہاجرین اور انصار صحابہ سے اللہ راضی ہے اور جن سے اللہ راضی ہے انہیں اس کی کیا پرواہ ہوگی کہ کوئی ان سے راضی ہو یا ناراض ہو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 100