وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يُّؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرۡبَةٌ لَّهُمۡؕ سَيُدۡخِلُهُمُ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 99
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يُّؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرۡبَةٌ لَّهُمۡؕ سَيُدۡخِلُهُمُ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ۞
ترجمہ:
اور بعض دیہاتی وہ ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کو اللہ کے نزدیک تقرب کا اور رسول کی نیک دعائوں کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہی، سنو ! یہ ان کے تقرب کا ذریعہ ہے، اللہ عنقریب ان کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بعض دیہاتی وہ ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کو اللہ کے نزدیک تقرب کا اور رسول کی نیک دعائوں کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، سنو ! یہ ان کے تقرب کا ذریعہ ہے اللہ عنقریب ان کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا بیشک اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے (التوبہ : ٩٩)
شانِ نزول اور ربط آیات :
اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا : بعض اعراب وہ ہیں جو راہ حق میں اپنے خرچ کرنے کو (مغرم) جرمانہ قرار دیتے ہیں۔ امام ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ زید بن اسلم سے روایت کیا ہے : یہ اعراب میں سے منافقین تھے جو دکھاوے کے لیے راہ حق میں خرچ کرتے تھے اور اس ڈر سے خرچ کرتے تھے کہ ان کو قتل کردیا جائے گا اور اپنے خرچ کرنے کو جرمانہ قرار دیتے تھے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٦ ص ١٨٦٦، جامع البیان جز ١٠ ص ٧)
اور اب اس آیت میں اعراب کی دوسری قسم بیان فرمائی ہے جو اپنے خرچ کرنے کو اللہ سے قرب کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ امام ابن ابی حاتم نے کہا : یہ مزینہ سے بنو مقرن تھے۔ اور امام ابن جریر نے کہا، حضرت عبداللہ بن مغفل نے فرمایا : یہ مقرن کے دس بیٹے تھے اور یہ آیت ہم میں نازل ہوئی ہے۔ (جامع البیان جز ١٠، ص ٩، تفسیر امام ابن ابی حاتم جز ٦، ص ١٨٦٧ )
قربات اور صلوات کے معنی :
قربات : قربۃ کی جمع ہے اور یہ وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کیا جائے اور اس کا معنی یہ ہے کہ وہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف قرب کا ذریعہ قرار دیتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے حصول کا سبب قرار دیتے تھے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ کرنے والوں کے لیے دعا فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وصل علیھم ان صلٰوتک سکنٌ لھم۔ (التوبہ : ١٠٣)
ترجمہ : آپ ان کے لیے دعا کیجئے، آپ کی دعا ان کے لیے طمانیت ہے۔
حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کوئی شخص صدقہ لے کر آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : اے اللہ ! آلِ فلاں پر صلوٰۃ نازل فرما یعنی اس پر رحم فرما اور اس کی مغفرت فرما۔ اور جب میرے باپ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! آلِ ابو اوفیٰ پر صلوٰۃ بھیج۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٧٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٩٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٩٦) ۔ علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ صلوات الرسول کا معنی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار کرنا اور دعا کرنا۔ اور صلوٰۃ کی کئی قسمیں ہیں۔ اللہ عزوجل کی صلوٰۃ کا معنی ہے رحمت، خیر اور برکت۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :ھوالذی یصلی علیکم وملآئکتہ۔ (الاحزاب : ٤٣ )
ترجمہ : وہی ہے جو تم پر صلوٰۃ نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے۔
اور فرشتوں کے صلوٰۃ بھیجنے کا معنی ہے دعا کرنا۔ اور یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صلوٰۃ بھیجنے کا معنی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٨، ص ١٥٨، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 99