اَلَمۡ يَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقۡبَلُ التَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهٖ وَيَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 104
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ يَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقۡبَلُ التَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهٖ وَيَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ۞
ترجمہ:
کیا یہ نہیں جانتے کہ بیشک اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے اور بیشک اللہ ہی بہت توبہ قبول کرنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا یہ نہیں جانتے کہ بیشک اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے اور بیشک اللہ ہی بہت توبہ قبول کرنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبہ : ١٠٤)
صدقہ کی ترغیب :
اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا : جن بندوں نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کے کفارہ میں صدقہ کیا، عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اس آیت میں توبہ کو قبول کرنے کی امیددلائی تھی۔ توبہ قبول کرنے کی خبر نہیں دی تھی۔ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے۔ تاکہ بندے زیادہ ذوق و شوق اور رغبت سے صدقہ و خیرات کریں۔ نیز پہلی آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے صدقات لیں۔ اور اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ صدقات لیتا ہے۔ اور یہ بظاہر تعارض ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقات لینا، اللہ ہی کا صدقات لینا ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے نائب مطلق ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیے جانے والے معاملات کو اپنے افعال اور اپنے ساتھ کیے جانے والا معاملہ قرار دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ۔ (الفتح : ١٠) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ ان الذین یوذون اللہ۔ (الاحزاب : ٥٧) بیشک جو لوگ اللہ کو ایذاء دیتے ہیں۔ اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء دینا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایذاء دینا تو محال ہے۔ یخادعون اللہ۔ (البقرہ : ٩) وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں۔ اس سے مراد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دینا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے عقیدہ میں اللہ کو دھوکا نہیں دیتے تھے۔
صدقہ کی فضیلت میں احادیث :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص بھی کسی پاک چیز کو صدقہ کرتا ہے، اور اللہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا، تو رحمن اس کو اپنے ہاتھ سے لیتا ہے، خواہ وہ ایک کھجور ہے، پھر وہ کھجور رحمن کے ہاتھ میں بڑھتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کو یا اس کے بچھیرے کو بڑھاتا رہتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤١٠ ھ، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٦٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٢٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٤٢، مسند احمدج ٣ ص ٢٦٨، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٤٢٦ ) ۔
ترمذی کی دوسری روایت میں ہے : حتیٰ کہ ایک لقمہ پہاڑ جنتا ہوجاتا ہے اور اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے : وہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٤) اور اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا رہتا ہے (البقرہ : ٢٧٦) ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی یہ اضافہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کون سا صدقہ سب سے افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تنگ دست کی کمائی، اور فرمایا : اپنے عیال سے ابتداء کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٥٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٦٣، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٧٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٤٤، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٦٥١ ) ۔
حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زکوٰۃ کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : (اصل) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔ (اصل) نیکی اس شخص کی ہے جو اللہ، قیامت کے دن، فرشتوں، (آسمانی) کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے، اور مال سے محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے مال دے۔ (البقرہ : ١٧٧) ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٥٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٨٩، سنن الدارمی رقم الحدیث ١٦٣٧) ۔
حضرت حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اپنے عیال سے ابتدا کرو۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو انسان خوشحالی کے وقت دے۔ جو شخص سوال سے رکے گا اللہ اس کو سوال سے باز رکھے گا۔ اور جو مستغنی رہے اللہ اس کو مستغنی رکھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٢٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٦٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٠٣، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٧٦، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٧٥٠ ) ۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی خاتون اپنے گھر کے طعام سے خرچ کرے درآنحالیکہ وہ اس کو ضائع کرنے والی نہ ہو تو اس کو طعام خرچ کرنے کا اجر ملتا ہے۔ اور اس کے خاوند کو اپنے کمانے کا اجر ملتا ہے اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے اور ان میں سے کسی کا اجر دوسرے کے اجر میں کمی نہیں کرتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٢٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٢٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٧٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٨٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٩٤) ۔
حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس صرف وہ مال ہے جو مجھے (حضرت) زبیر نے دیا ہے۔ کیا میں صدقہ کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صدقہ کرو اور ہاتھ نہ روکو ورنہ تم سے بھی روک لیا جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٩٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٦٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٥١، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٩٩) ۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک سائل آیا۔ اس وقت میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے۔ میں نے اس سائل کو کچھ چیز دینے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سائل کو بلایا اور اس چیز کو دیکھا۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم یہ نہیں چاہتیں کہ تمہارے گھر میں جو کچھ آئے اور تمہارے گھر سے جو کچھ جائے اس کا تم کو علم ہو ؟ میں نے کہا : ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ٹھہرو اے عائشہ ! تم گن گن کر نہ دیا کرو۔ ورنہ اللہ عزوجل بھی تم کو گن گن کر دے گا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٧٠٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٤٩ ) ۔
حضرت عمرو بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسلمان کا صدقہ عمر میں زیادتی کرتا ہے۔ بری موت کو دور کرتا ہے اور اللہ اس کی وجہ سے تکبر اور فخر کو دور کرتا ہے۔ (المعجم الکبیر ج ١٧ ص ٢٢، حافظ الہیشمی نے کہا : اس میں ایک راوی ضعیف ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٤٦٠٩) ۔
حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صدقہ، صدقہ دینے والوں کی قبروں سے گرمی کو دور کرتا ہے اور مسلمان قیامت کے دن صرف اپنے صدقہ کے سائے میں ہوگا۔ (المعجم الکبیر ج ١٧، ص ٢٨٦، اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے اس میں کلام ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٤٦١٢) ۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ گھر والوں نے ایک بکری کو ذبح کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اس میں سے کچھ بچا ہے ؟ حضرت عائشہ نے کہا : اس کا صرف ایک شانہ باقی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شانہ کے علاوہ باقی سب باقی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٧٠، مسند احمد ج ٦ ص ٥٠، حلتیہ الاولیاء ج ٥ ص ٢٣ ) ۔
حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : امام ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت معاویہ (رض) کے زمانہ میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی قیادت میں مسلمانوں نے جہاد کیا۔ ایک مسلمان نے مال غنیمت میں سے سو رومی دینار غبن کرلیے۔ جب لشکر واپس چلا گیا اور سب لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے تو وہ مسلمان بہت نادمہوا۔ اس نے امیر لشکر کے پاس یہ دینار پہنچائے۔ اس نے ان کو لینے سے انکار کردیا کہ جن اہل لشکر میں یہ دینار تقسیم کیے جاسکتے تھے وہ سب تو اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اب میں ان کو نہیں لے سکتا۔ تم قیامت کے دن یہ دینار خدا کو پیش کردینا۔ اس شخص نے بہت سے صحابہ سے یہ مسئلہ معلوم کیا۔ سب نے یہی جواب دیا۔ وہ دمشق گیا اور حضرت معاویہ سے ان کو قبول کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے بھی انکار کیا۔ وہ روتا ہوا عبداللہ بن الشاعر الس کسی کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے اس سے رونے کا سبب پوچھا۔ اس نے سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا : تم حضرت معاویہ کے پاس جائو اور ان سے کہو اس میں سے پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے وہ لے لیں اور بیس دینار ان کے حوالے کردو اور باقی اسی (٨٠) دینار ان اہل لشکر کی طرف سے صدقہ کردو جو ان کے مستحق ہوسکتے تھے۔ کیونکہ اللہ ان کے ناموں اور ان کے پتوں سے واقف ہے۔ وہ ان کو ان دینار کا ثواب پہنچا دے گا اور اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سو اس مسلمان نے ایسا ہی کیا۔ حضرت معاویہ نے کہا : اگر یہ فتویٰ میں نے دیا ہوتا تو مجھے یہ فتویٰ اپنی ساری مملکت سے زیادہ محبوب تھا۔ (مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر ج ١٢ ص ٢٥٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤٠٩، تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٤٣٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ) ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 104