أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِهِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًـا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنۡ يَّتُوۡبَ عَلَيۡهِمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور بعض دوسرے وہ (مسلمان) ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا، انہوں نے نیک کاموں کو دوسرے برے کاموں کے ساتھ ملا دیا، عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بعض دوسرے وہ (مسلمان ہیں) جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا، انہوں نے نیک کاموں کو دوسرے برے کاموں کے ساتھ ملا دیا، عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے (التوبہ : ١٠٢)

حضرت ابولبابہ کی توبہ :

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا ذکر فرمایا تھا جو جھوٹے بہانے تراش کر غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے۔ بعض مسلمان بھی بغیر کسی سبب اور عذر کے غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے۔ لیکن انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آ کر اپنے قصور کا اعتراف کرلیا اور منافقوں کی طرح جھوٹے عذر پیش نہیں کیے اور انہوں نے یہ امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا۔

امام ابوجعفر بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ دس مسلمان تھے جو غزوہ تبوک میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو ان میں سے سات نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ اور وہ ایسی جگہ تھی جہاں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گزرتے تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھا تو فرمایا : یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھا ہوا ہے ؟ مسلمانوں نے کہا : یہ ابولبابہ اور ان کے اصحاب ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے۔ یہ اس وقت تک بندھے رہیں گے جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا عذر قبول کرکے ان کو نہیں کھولیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اس وقت تک ان کو نہیں کھولوں گا اور ان کا عذر قبول نہیں کروں گا جب تک کہ اللہ ہی ان کو کھولنے کا حکم نہ دے۔ ان لوگوں نے مجھ سے اعراض کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں نہیں گئے۔ جب ان مسلمانوں کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا : ہم خود اپنے آپ کو نہیں کھولیں گے حتیٰ کہ اللہ ہی ہمیں کھولے گا۔ تب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بعض دوسرے وہ (مسلمان ہیں) جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا۔ انہوں نے نیک کاموں کو دوسرے برے کاموں کے ساتھ ملا دیا اور عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔

حضرت ابن عباس سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ چھ افراد تھے اور ان میں سے ایک حضرت ابولبابہ تھے۔ زید بن اسلم سے روایت ہے کہ جن مسلمانوں نے خود کو ستونوں سے باندھا تھا وہ آٹھ افراد تھے۔ ان میں کردم، مرداس اور ابولبابہ تھے۔

قتادہ سے روایت ہے کہ یہ سات افراد تھے۔ ان میں ابولبابہ بھی تھے لیکن وہ تین صحابہ (ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع اور کعب بن مالک) ان میں نہیں تھے۔

ضحاک نے روایت کیا ہے کہ یہ ابولبابہ اور ان کے اصحاب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی اور ان کو کھول دیا تھا۔

مجاہد نے روایت کیا ہے کہ ابولبابہ کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے بنو قریظہ کو اشارہ سے یہ بتایا تھا کہ اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے سے قلعہ سے نکل آئے تو وہ تم کو ذبح کردیں گے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کو حلقوم پر رکھ کر اشارہ کیا تھا۔

امام ابو جعفر نے کہا : ان روایات میں اولیٰ یہ ہے کہ حضرت ابولبابہ نے غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے اپنے آپ کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھا تھا۔ (جامع البیان جز ١١ ص ٢٢۔ ١٩، ملخصاً ، تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٦ ص ١٨٧٣۔ ١٨٧٢)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 102