أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَـقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ الَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ فِىۡ سَاعَةِ الۡعُسۡرَةِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا كَادَ يَزِيۡغُ قُلُوۡبُ فَرِيۡقٍ مِّنۡهُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّهٗ بِهِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌۙ ۞

ترجمہ:

بیشک اللہ نے نبی پر فضل فرمایا اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے تنگی کے وقت میں نبی کی اتباع کی جب کہ اس کے بعد یہ قریب تھا کہ ایک گروہ کے دل اپنی جگہ سے ہل جائیں پھر اس کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول کی بیشک وہ ان پر نہایت مہربان بہت رحم والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ نے نبی پر فضل فرمایا اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے تنگی کے وقت میں نبی کی اتباع کی جبکہ اس کے بعد یہ قریب تھا کہ ایک گروہ کے دل اپنی جگہ سے ہل جائیں پھر اس کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول کی بیشک وہ ان پر نہایت مہربان، بہت رحم والا ہے۔ (التوبہ : ١١٧) 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توبہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول فرمانے کی توجیہات اس آیت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے نبی کی توبہ قبول فرمائی، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب منافقین نے جھوٹے بہانے پیش کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غزوہ تبوک میں نہ جانے کی اجازت لی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے ان کو اجازت دے دی، اس کے متعلق اس سے پہلے یہ آیت آچکی ہے : عفا اللہ عنک لم اذنت لھم (التوبہ : ٤٣) اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان کو کیوں اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ آپ ان کے ظاہر حال کا اعتبار نہ کریں اور ان کے پیش کردہ بہانوں کو مسترد کردیں اگر آپ کو پہلے منع فرمایا ہوتا اور پھر آپ اجازت دے دیتے تو پھر آپ کا یہ اجازت دینا مکروہ تنزیہی یا ترک اولیٰ یا ترک افضل ہوتا بلکہ صحیح یہی ہے کہ آپ کو ظاہر حال پر عمل کرنے اور باطن کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کا حکم ہے۔

امام شافعی نے کتاب الام میں حضرت ام سلمہ کی روایت بیان کر کے یہ کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ظاہر پر حکم کرتے ہیں اور باطن کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور حافظ ابوطاہر نے ادارۃ الحکام میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کندی اور حضرت کے درمیان فیصلہ فرمایا تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا آپ نے میرے خلاف فیصلہ کیا ہے حالانکہ حق میرا تھا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں ظاہر کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں اور باطن اللہ کے سپرد ہے۔ (تحفتہ الطالب بہ معرفتہ احادیث مختصر ابن الحاجب ص ١٤٥، مطبوعہ دار ابن حزم بیروت ١٤١٦ ھ)

سو یہی کہا جائے گا کہ آپ نے اپنے اجتہاد سے ان کو اجازت دی تھی بالفرض اگر یہ اجتہادی خطا بھی ہو تب بھی آپ اس پر ایک اجر کے مستحق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے اس نے نبی کی توبہ قبول فرمائی اس کا معنی آپ کے درجات کی بلندی ہے، آپ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے ہر روز توبہ اور استغفار کرتے تھے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٠٧، مسند احمد ج ٢ ص ٣٤١، الکامل لابن عدی ج ٣ ص ١٠٤٧، حلیتہ الاولیاء ج ٧ ص ٣٢٥)

حضرت اغر مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے دل پر غین (غفلت) طاری ہوجاتی ہے اور میں اللہ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ امام نسائی کی روایت میں ہے : میں ہر دن سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم الدعوات : ٤١ (٢٧٠٢) ٦٧٣٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٥، عمل الیوم و الیلیۃ للنسائی رقم الحدیث : ٤٤٧، مسند احمد ج ٢ ص ٣٩٧، سنن بیہقی ج ٧ ص ٥٢)

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! اللہ کی طرف توبہ کرو کیونکہ میں ایک دن میں اس کی طرف سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ امام نسائی کی روایت میں ہے : میں ایک دن میں سو مرتبہ سے زیاد اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم، الدعوات : ٤٢، (٢٧٠٢) ٦٧٣٠، عمل الیوم و الیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٤٤٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨، ٧٨)

قاضی عیاض نے کا ہ : غین سے مراد غفلت ہے (یعنی لوگوں کو تبلیغ کرنے، کھانے پینے اور دیگر عوارض بشریہ لاحق ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آپ کی توجہ نہ رہتی اور آپ اس استغفار کرتے تھے۔

ایک قول یہ ہے کہ آپ کے دل پر طمانیت طاری ہوجاتی اور آپ اظہار عبودیت کے لیے استغفار کرتے تھے۔

ایک قول یہ ہے کہ آپ کے دل پر خشیت الٰہی کی کیفیت طاری ہوتی اور آپ استغفار کر کے اس کا شکر ادا کرتے۔ اس حدیث پر یہ اشکال ہے۔ استغفار معصیت کے وقوع کا تقاضا کرتا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں، اس اشکال کے متعدد جوابات ہیں :

(١) ابن بطال نے کہا کہ انبیاء (علیہم السلام) تمام مخلوق سے زیادہ عبادت میں کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ کماحقہ عبادت نہیں کرسکتے اور اس تقصیر پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔

(٢) وہ کھانے پینے، وظیفہ زوجیت، نیند، راحت لوگوں سے گفتگو، ان کی مصلحتوں میں غوروفکر، دشمنوں سے جنگ اور دیگر مباح کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی طرف رجوع اور مشاہدہ اور مراقبہ سے محجوب ہوجاتے ہیں اور اپنے بلند مقام کی وجہ سے اس کو ذنب خیال فرماتے ہیں اور اس پر استغفار فرماتے ہیں۔

(٣) وہ امت کی تعلیم کے لیے استغفار فرماتے ہیں یا امت کے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں۔ یہ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توبہ اور استغفار کرنے کا معنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی توبہ قبول فرمائی اس کا معنی ہے اس نے آپ پر فضل و کرم فرمایا اور آپ کے درجات اور مراتب میں ترقی فرمائی ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ 

مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کرنے کا محمل

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : انسان اپنی طویل زندگی میں سہو، تسامح اور لغزشوں سے خالی نہیں ہوتا اور یہ امور صغائر کے باب سے ہوتے ہیں یا ترک افضل اور خلاف اولیٰ سے، پھر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے اس سفر میں بہت تکلیفیں، مشقتیں اور سختیاں اٹھائیں تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کی یہ تکلیفیں اور سختیاں ان کی اس طویل زندگی کی تمام لغزشوں اور خلاف اولیٰ کاموں کے لیے کفارہ بن گئیں اور یہ تکلیفیں ان کی اخلاص کے ساتھ توبہ کے قائم مقام ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ نے نبی کی توبہ قبول کی اور ان مہاجرین اور انصار کی جنہوں نے تنگی کے وقت میں نبی کی اتباع کی۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس سفر میں ان پر بہت سختیاں اور صعوبتیں آئیں تھیں اور مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے آتے رہتے تھے اور جب بھی کسی کے دل میں کوئی وسوسہ آتا تو وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا اور اس وسوسہ کے ازالہ کے لیے اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتا تو ان کی کثرت توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ بعید نہیں ہے کہ اس سفر میں مسلمانوں سے کچھ گناہ ہوگئے ہوں لیکن اس سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ گناہ معاف فرما دیئے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ نے نبی کی توبہ قبول کی اور ان مہاجرین اور انصار کی جنہوں نے تنگی کے وقت میں نبی کی اتباع کی، ہرچند کہ ان مہاجرین اور انصار کے گناہ معاف کیے تھے لیکن ان کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر دین میں ان کے عظیم مرتبہ پر متنبہ کرنے کے لیے فرمایا کہ وہ اتنے عظیم عظیم درجہ پر فائز ہیں کہ قبولیت توبہ میں ان کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ١٦٢، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ) 

غزوہ تبوک کی تنگی اور سختی اس آیت میں فرمایا ہے کہ مہاجرین اور انصار نے تنگی کے وقت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی اس تنگی کے وقت سے مراد غزوہ تبوک ہے کیونکہ اس سفر میں مسلمانوں پر بہت سختیاں اور صعوبتیں آئی تھیں۔ حضرت جابرنے کہا : اس سفر میں سواری کے لیے بھی مشکلات تھیں، پانی کے لیے بھی اور زاد راہ کے لیے بھی۔ سواری کی مشکلات یہ تھیں کہ حسن نے کہا : دس مسلمان ایک اونٹ پر باری باری سواری کرتے تھے اور زادراہ کی یہ مشکلات تھیں کہ بعض اوقات مسلمانوں کی ایک جماعت باری باری کھجور کی ایک گٹھلی چوستی تھی، ان کے پاس سڑے ہوئے جو تھے وہ ناک پکڑ کر اس کا لقمہ کھاتے تھے اور پانی کی مشکلات یہ تھیں کہ حضرت عمر نے کہا : شدت پیاس کی وجہ سے ایک شخص اپنے اونٹ کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی کو نچوڑ کر پیتا۔ (جامع البیان جز ١١ ص ٧٥، تفسیر امام ابن بی حاتم ج ٦ ص ١٨٩٩۔ ١٨٩٨، ملخصًا)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سات ھایک سفر (غزوہ تبوک) میں تھے، قوم کا زاد راہ ختم ہوگیا حتیٰ کہ بعض مسلمانوں نے اپنی سواریوں کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت عمر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر آپ قوم کے باقی ماندہ زاد راہ کو جمع کرلیں پھر اللہ سے اس پر (برکت کی) دعا کریں۔ آپ نے ایسا ہی کیا پھر کوئی گندم والا گندم لے کر آیا اور کھجور والا کھجور لے کر آیا۔ مجاہد نے کہا : اور گٹھلی والا گٹھلی لے کر آیا۔ راوی کہتے ہیں میں نے مجاہد سے پوچھا : وہ گٹھلیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : وہ گٹھلی چوس کو اوپر سے پانی پی لیا کرتے تھے۔ آپ نے دعا کی حتیٰ کہ قوم کے تمام زاد راہ پر ہوگئے، اس وقت آپ نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، جو شخص بھی بغیر کسی شک کے ان شہادتوں کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے گا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم، الایمان : ٤٤ (٢٧) ١٣٧، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٥ ص ٢٢٩، مسند احمد رقم الحدیث : ١١٠٨٠، البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٦٠٣، طبع جدید دارالفکر)

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے کہا گیا کہ آپ ہمیں تنگی کے وقت کے لشکر کے متعلق کچھ بتائیے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کہ ہم سخت گرمیوں میں تبوک کی طرف گئے، ہم ایک ایسی جگہ ٹھہرے جہاں ہمیں سخت پیاس لگی، حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ ہماری گردنیں ٹوٹ جائیں گی، یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس پانی طلب کرنے جاتا تو اس حال میں واپس آتا کہ اس کی گردن ڈھل کی ہوئی ہوتی، حتیٰ کہ ایک شخص اپنے اونٹ کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی کو نچوڑ کر پیتا اور باقی ماندہ کو اپنے جگر پر ڈال لیتا، پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : یا رسول اللہ ! آپ اللہ سے دعا کیجیے۔ آپ نے پوچھا : کیا تم یہ چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! پس آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ابھی آپ نے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ آسمان سے پانی برسنے لگا حتیٰ کہ تمام اہل لشکر نے اپنے برتن بھر لیے۔ (دلائل النبوۃ ج ٦ ص ١٩٥۔ ١٩٤، مسند البزار رقم الحدیث : ١٨٤١، مجمع الزوائد ج ٦ ص ١٩٥۔ ١٩٤، الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١٢٧۔ ١٢٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٨ ھ) 

اللہ تعالیٰ کا باربار توبہ قبول فرمانا اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : اللہ نے نبی کی توبہ قبول کی اور مہاجرین اور انصار کی اور اس آیت کے آخر میں پھر فرمایا۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول کی اور یہ بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گناہ کا ذکر کیے بغیر ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا تاکہ ان کے دل خوش ہوں، پھر فرمایا : انہوں نے تنگی کے وقت میں نبی کی اتباع کی، اس کے بعد یہ قریب تھا کہ ایک گروہ کے دل اپنی جگہ سے ہل جائیں یعنی غزوہ تبوک کی سختیوں اور صعوبتوں کو دیکھ کر بعض مسلمان گھبرا گئے تھے اور ان کے دلوں میں وسوسے آنے لگے تھے اور یہ وسوسہ گناہ کے قائم مقام تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا، گویا پہلے گناہ کا ذکر کیے بغیر توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا اور دوبارہ گناہ کا ذکر کر کے توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا اور اس سے محض ان کی عظمت اور شان بیان کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار توبہ قبول فرماتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : ایک بندہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندہ نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر گرفت کرتا ہے، وہ بندہ دوبارہ گناہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میرے گناہ کو بخش دے پس اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندہ نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر گرفت فرماتا ہے، وہ بندہ پھر تیسری بار گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میرے گناہ کو بخش دے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندہ نے گناہ کیا اور اس کو معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر گرفت فرماتا ہے تو جو چاے کر میں نے تجھ کو بخش دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥٠٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٠٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٥٨، مسند احمد ج ٢ ص ٤٩٢، اتحاف ج ٥ ص ٥٩)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب تک بندہ گناہ کر کے توبہ کرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرتا رہے گا لیکن یہ واضح رہے کہ اس کی توبہ صحیحہ ہو بایں طور کہ وہ اپنے گناہ پر نادم ہو اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم صمیم کرے اور اس گناہ کی تلافی اور تدارک بھی کرے اور اگر توبہ کرتے وقت اس کی یہ نیت ہو کہ میں دوبارہ پھر یہ گناہ کروں گا تو یہ ایسی توبہ ہے کہ یہ توبہ بھی گناہ ہے اور اس توبہ سے بھی اس پر توبہ کرنا لازم ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مثال ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو اور جو شخص گناہ سے استغفار کرے درآنحالیکہ وہ گناہ پر برقرار ہو وہ اس شخص کی طرح ہے جو اپنے رب سے مذاق کر رہا ہو۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧١٧٨، الفردو بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٢٤٣٣) ذوالنون نے کہا : گناہ کو جڑ سے اکھاڑے بغیر توبہ کرنا کذابین کی توبہ ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧١٧٧)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 117