أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَةٌ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّقُوۡلُ اَيُّكُمۡ زَادَتۡهُ هٰذِهٖۤ اِيۡمَانًا‌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّهُمۡ يَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ؟ سوچو ایمان والے ہیں ان کے ایمان کو تو اس سورت نے (درحقیقت) زیادہ ہی کیا ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ؟ سو جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان کو تو اس سورت نے (درحقیقت) زیادہ ہی کیا ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس سورت نے ان کی (سابق) نجاست پر ایک اور نجاست کا اضافہ کردیا اور وہ حالت کفر میں ہی مرگئے۔ (التوبہ : ١٢٥۔ ١٢٤)

ان آیات میں اللہ تعالیٰ منافقین کے برے کام بیان فرما رہا ہے اور ان برائیوں میں سے ایک برائی یہ ہے کہ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا اور اس نے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ایمان سے متنفر کریں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے ان سے استہزاء اس طرح کہتے ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی سورت کے نازل ہونے سے مسلمانوں کو دو امر حاصل ہوتے ہیں : ایک تو یہ ہے کہ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو مسلمان اس سورت پر ایمان لاتے ہیں اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور یہ امران کے ایمان میں اضافہ اور تقویت کا موجب ہوتا ہے اور ان کو اس سے خوشی حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس سورت میں جو احکام مذکور ہیں ان پر عمل کرکے وہ اللہ تعالیٰ کی مزید خوشنودی اور اجر آخرت کے مستحق ہوں گے اور ان احکام پر عمل کرنے سے وہ دنیا میں بھی نصرت اور کامرانی حاصل کریں گے۔ پھر دوسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کس نئی سورت کے نازل ہونے سے منافقوں کو بھی دو امر حاصل ہوتے ہیں : ایک امر یہ ہے کہ ان کی سابق نجاست میں اضافہ ہوتا ہے، نجاست سے مراد ان کے عقائد باطلہ اور اخلاق مذمومہ ہیں، وہ پہلے بھی قرآن مجید کے وحی الٰہی ہونے کے منکر تھے اور جب یہ ایک اور سورت نازل ہوئی تو انہوں نے اس کا مزید انکار کیا اور یوں ان کے کفر میں اضافہ ہوتا اور دوسرا امر یہ ہے کہ ان کی موت کفر پر واقع ہوگی اور یہ حالت پہلی حالت سے زیادہ قبیح ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 124