أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

دَعۡوٰٮهُمۡ فِيۡهَا سُبۡحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِيَّـتُهُمۡ فِيۡهَا سَلٰمٌ‌ۚ وَاٰخِرُ دَعۡوٰٮهُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جنتوں میں ان کی (بےساختہ) پکار ہوگی ” پاک ہے تو اے اللہ ! “ اور جنتوں میں ان کی ایک دوسرے کے لیے یہ دعا ہوگی : ” سلام (علیکم) “ اور ہر بات کے آخر میں ان کا یہ کہنا ہوگا : ” الحمد للہ رب العالمین “ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جنتوں میں ان کی (بےساختہ) یہ پکار ہوگی : ” پاک ہے تو اے اللہ ! “ اور جنتوں میں ان کی ایک دوسرے کے لیے یہ دعا ہوگی : ” سلام (علیکم) “ اور ہر بات کے آخر میں ان کا یہ کہنا ہوگا : ” الحمد للہ رب العلمین “ (یونس : ١٠)

اہل جنت کی گفتگو کا معمول :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ نیک عمل کرنے والے مومنین جنت میں ہوں گے اور اس آیت میں یہ بیان فرما رہا ہے کہ ان کے جنت میں کیا معمولات ہوں گے، اور اس آیت میں بتایا ہے کہ جس طرح مومنین دنیا میں سبحان اللہ کہتے تھے اور ہر قسم کے عیب سے اللہ تعالیٰ کی براءت اور تنزیہ بیان کرتے تھے سو اسی طرح جنت میں بھی وہ ہر وقت تسبیح اور تقدیس کرتے رہیں گے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ دعو ھم کا معنی ہے ان کی تمنا، یعنی ان کی تمنا اور آرزو یہ ہوگی کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تقدیس کرتے رہیں۔ اور بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک مسلمانوں سے ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا تھا (تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ جزا دے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، یونس : ٤) پس جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے اور جنت کی ان عظیم نعمتوں کو دیکھیں گے تو ان کو تصدیق ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جو ان نعمتوں کے دینے کا وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا، تو وہ اس وقت بےساختہ کہہ اٹھیں گے سبحانک اللھم یعنی اے اللہ ! تو اس بات سے پاک ہے کہ تو وعدہ کر کے پورا نہ فرمائے یا تیرا قول صادق نہ ہو۔ اس کے بعد فرمایا : جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو وہی دعا دیں جو فرشتے ان کو دعا دیں گے اور فرشتوں کی دعا یہ ہے : والملٓئکۃ یدکلون علیھم من کل بابٍ سلام ’‘ علیکم۔ (الرعد : ٢٤۔ ٢٣) اور فرشتے ہر دروازہ سے ان پر (یہ کہتے ہوئے) داخل ہوں گے ” سلام علیکم “ (تم پر سلامتی ہو) پھر فرمایا : اور ہر بات کے آخر میں ان کا یہ کہنا ہوگا : ” الحمد للہ رب العلمین “ یعنی ان کی گفتگو کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے ہوگا اور ان کی گفتگو کا اختتام اللہ تعالیٰ کی حمد پر ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 10