هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِيَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالۡحَـقِّۚ يُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِيَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالۡحَـقِّۚ يُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دینے والا اور چاند کو روشن، اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب کو جان لو۔ اللہ نے یہ سب برحق ہی پیدا کیا ہے وہ علم والوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانیاں واضح کرتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دینے والا بنایا اور چاند کو روشن، اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب کو جان لو، اللہ نے یہ سب برحق ہی پیدا کیا ہے، وہ علم والوں کے لیے ( اپنی قدرت کی) نشانیاں واضح کرتا ہے بیشک رات اور دن کے بدلنے میں اور ہر اس چیز میں جس کو اللہ نے آسمانوں اور زمینوں میں پیدا کیا ہے ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (فکر کی غلطی سے) بچتے ہیں۔ (یونس : ٦۔ ٥)
سورج سے الوہیت اور توحید پر استدلال :
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے الوہیت اور توحید پر استدلال کیا تھا، اور اس آیت میں سورج اور چاند کو پیدا کرنے سے توحید پر استدلال کیا ہے، اس استدلال کی تقریر یہ ہے کہ سورج، چاند اور باقی تمام سیارے بحیثیت جسم سب مساوی ہیں، اب سورج کو اس وضع مخصوص اور صفات مخصوصہ عطا کرنے کے لیے کوئی مرجح ہونا چاہیے اور وہ مرجح واججب الوجود اور قدیم بالذات ہونا چاہیے کیونکہ ممکن اور حادث تو اپنے وجود میں پھر کسی مرجح کا محتاج ہوگا اور واجب الوجود کا واحد ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر وہ دو واجب الوجود ہوں تو ان میں ایک امر مشترک ہوگا اور ایک امر مخصص اور ممیز ہوگا اور جو دو چیزوں سے مرکب ہو وہ اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور مرکب اور محتاج حادث اور ممکن ہوتا ہے واجب اور قدیم نہیں ہوتا پس ثابت ہوا کہ سورج کی وضع مخصوص اور اس کی صفات مخصوصہ ذاتی نہیں ہیں کیونکہ سورج جسم ہونے میں تمام اجسام مساوی ہے سو اگر یہ اس کی جسمیت کا تقاضا ہوں تو تمام اجسام سورج کی طرح ہونے چاہیں، اس لیے وضع اور ان صفات کے لیے کوئی مرجح ہونا چاہیے اور ہم بتا چکے ہیں کہ وہ مرجح واجب الوجود، قدیم اور واحد ہونا چاہیے اور واجب الوجود قدیم اور واحد اللہ عزو جل ہی کی ذات ہے اور جب وہ سورج کا خالق ہے تو تمام کائنات کا وہی خالق ہے کیونکہ وہ دلیل سورج میں جاری ہوئی ہے وہی ساری کائنات میں جاری ہوگی۔ پس ثابت ہوگیا کہ تمام کائنات کا خالق اللہ ہے اور وہ واحد لا شریک ہے۔
تاریخ کا تعین قمری حساب سے کرنا چاہیے سورج اور چاند کی روشنیوں میں مخلوق کے بہت فائدے ہیں، سورج کی روشنی سے دن میں کاروبار ہوتا ہے اور اس کی حرکت سے مختلف موسم وجود میں آتے ہیں جس سے اس دنیا کی مصلحتیں حاصل ہوتی ہیں اور چاند کی حرکت سے مہینوں اور سالوں کی گنتی اور حساب کا حصول ہوتا ہے، قرآن مجید کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تقویم اور تاریخ کا تعین قمری حساب سے کرنا چاہیے نہ کہ شمسی حساب سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دن اور رات کے اختلاف میں اور آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر نشانیاں ہیں اور ان میں اس کی الوہیت اور توحید پر دلیلیں ہیں اس پر مفصل گفتگو ہم البقرہ ١٦٤ میں کرچکے ہیں، اس کی تفسیر کو وہاں دیکھ لیا جائے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 5