أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰى وَزِيَادَةٌ ؕ وَلَا يَرۡهَقُ وُجُوۡهَهُمۡ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّـةٌ ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ‌ ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جن لوگوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے اچھی جزا ہے اور اس کے علاوہ زائد اجر ہے اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی نہ ذلت وہی جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جن لوگوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے اچھی جزاء ہے اور اس کے علاوہ زائد اجر ہے، اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی نہ ذلت، وہی جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (یونس : ٢٦ )

محشر میں مومنین کی عزت اور سرفرازی نیک عمل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جو احکام فرض اور واجب مقرر کیے ہیں ان کو اچھی طرح ادا کرتے ہیں اور سنن اور مستحبات پر عمل کرتے ہیں، جن کاموں کو حرام اور مکروہ تحریمی قرار دیا ہے ان سے دائماً مجتنب رہتے ہیں اور مکروہات اور خلاف اولی کاموں سے بھی بچتے رہتے ہیں اور اگر کوئی فروگزاشت ہوجائے تو فوراً توبہ کرلیتے ہیں اور حسنی (اچھی جزاء) سے مراد جنت ہے۔ اور زیادۃ (زائد اجر) سے مراد ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو زائد اجر عطا فرمائے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 

لیوفیھم اجورھم ویزیدھم من فضلہٖ (فاطر : ٣٠) تاکہ اللہ انہیں ان کا پورا اجر عطا فرمائے اور اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دے اور دوسرا قول یہ ہے کہ زیادہ اجر سے مراد ہے اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا دس گنا اجر عطا فرماتا ہے اور بعض اوقات سات سو گنا اجر عطا فرماتا ہے اور کبھی اس کو بھی دگنا کردیتا ہے اور کبھی بےحساب اجر عطا فرماتا ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضا زائد اجر ہے اور چوتھا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا میں بےحسان نعمتیں عطا فرماتا ہے اور پانچواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ عزو جل کا دیدار کرنا ہے : حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے للذین احسنو الحسنی و زیادۃ (یونس : ٢٦) کی تفسیر میں فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے، تو ایک منادی ندا کرے گا تمہارے لیے اللہ کے پاس ایک وعدہ ہے، اہل جنت کہیں گے : کیا اللہ نے ہمارے چہروں کو سفید نہیں کیا، کیا اس نے ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی، کیا اس نے ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا ؟ فرشتے کہیں گے : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : پھر حجاب کھول دیا جائے گا، آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ نے اپنی طرف دیکھنے سے زیادہ ان کے نزدیک کوئی محبوب چیز ان کو نہیں دی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ء ١٨٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٤٤١، مسند احمد ج ٤ ص ٣٣٢)

اللہ تعالیٰ کا دیدار :

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں : اس حدیث میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے، اور تمام اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ عقلاً اللہ تعالیٰ کو دیکھنا جائز ہے اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے آخرت میں مومنین کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ثابت ہے، اس پر امت کے تمام متقدمین کا اجماع ہے اور دس سے زیادہ صحابہ نے اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے۔ معتزلہ، خوارج اور بعض مرجیہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی عقلاً نفی کرتے ہیں، وہ کتے ہیں کہ دکھائی دینے والا دیکھنے والے کی مقابل جانب میں ہونا چاہیے اور دیکھنے والے کی بصری شعاعیں اس سے متصل ہونی چاہین اور اہل حق کہتے ہیں کہ یہ شرائط ممکنات کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان شرائط سے بڑی ہے، آخر وہ دیکھتا بھی تو ہے اور جب وہ بغیر سمت اور جانب کے دیکھتا ہے تو اس کے دکھائی دینے سے کیا چیز مانع ہے۔ (اکمال المعلم بہ فوائد مسلم ج ١ ص ٥٤١، ٥٤٠ مطبوعہ دارالوفاء بیروت، ١٤١٩ ھ)

اللہ تعالیٰ کے حجاب سے کیا مراد ہے اس حدیث میں ہے پھر حجاب کھول دیا جائے گا، اس حجاب سے مراد نور کا حجاب ہے کیونکہ حدیث میں ہے اللہ کا حجاب نور ہے اگر وہ اس حجاب کو کھول دے تو اس کے چہرے کے انوار منتہائے بصر تک تمام مخلوق کو جلا ڈالیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٥ مسند احمد ج ٤ ص ٤٠١) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حجاب دنیا کے معروف حجاب کی طرح نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی عزت اور جلال کے انوار کی وجہ سے مخلوق سے متحجب ہے اور اس کی عظمت اور کبریاء کی شعاعیں ہی وہ حجاب ہیں جس کے سامنے عقلیں مدہوش ہوجاتی ہیں اور نظریں مبہوت ہوجاتی ہیں اور بصیرتیں حیران ہوجاتی ہیں، اگر وہ حقائق صفات اور عظمت ذات کے ساتھ تجلی فرمائے تو ہر چیز خاکستر ہوجائے گی۔ 

حجاب اصل میں اس ستر کو کہتے ہیں جو دیکھنے والے اور دکھائی دینے والے کے درمیان حائل ہوجائے اور اس حدیث میں حجاب سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو دیکھنے سے اس کا نور جلال مانع ہے اور مانع کو ستر اور حائل کے قائم مقام کیا گیا ہے اور کتاب اور سنت کی تصریحات سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ حجاب اور دیکھنے سے مانع اس دنیا میں ہے جو فنا کے لیے بنائی گئی ہے نہ کہ آخرت میں جو بقاء کے لیے بنائی گئی ہے یعنی آخرت میں یہ حجاب کھول دیا جاء گا اور مومنین اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں گے اور یہ حجاب مخلوق کی طرف راجح ہے کیونکہ وہی اللہ سے محجوب ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 26