أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هُوَ الَّذِىۡ يُسَيِّرُكُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ‌ؕ حَتّٰۤى اِذَا كُنۡتُمۡ فِى الۡفُلۡكِ ۚ وَ جَرَيۡنَ بِهِمۡ بِرِيۡحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوۡا بِهَا جَآءَتۡهَا رِيۡحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَهُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ اُحِيۡطَ بِهِمۡ‌ ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَۙ  لَئِنۡ اَنۡجَيۡتَـنَا مِنۡ هٰذِهٖ لَنَكُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک ہمارے فرشتے تمہاری سازشوں کو لکھ رہے ہیں وہی ہے جو تم کو خشکی اور سمندر میں سفر کراتا ہے حتی کہ جب تم کشتیوں میں (محو سفر) ہو اور کشتیاں موافق ہوا کے ساتھ لوگوں کو لے کر جا رہی ہوں اور لوگ ان سے خوش ہو رہے ہوں تو (اچانک) ان کشتیوں پر تیز آندھی آئے اور (سمندر کی) موجیں ہر طرف سے ان کو گھیر لیں اور لوگ یہ یقین کرلیں کہ وہ (طوفان میں پھنس چکے ہیں اس وقت وہ دین میں اللہ کے ساتھ مخلص ہو کر اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس (طوفان) سے بچا لیا تو ہم ضرور تیرا شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہی ہے جو تم کو خشکی اور سمندر میں سفر کراتا ہے، حتی کہ جب تم کشتیوں میں (محو سفر) ہو اور وہ کشتیاں موافق ہوا کے ساتھ لوگوں کو لے کر جا رہی ہوں اور لوگ ان سے خوش ہو رہے ہوں تو (اچانک) ان کشتیوں پر تیز آندھی آئے اور (سمندر کی) موجیں ہر طرف سے ان کو گھیر لیں اور لوگ یہ یقین کرلیں کہ وہ (طوفان) میں پھنس چکے ہیں، اس وقت وہ دین میں اللہ کے ساتھ مخلص ہو کر اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس (طوفان) سے بچا لیا تو ہم ضرور تیرا شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے پھر جب اللہ نے انہیں بچا لیا تو وہ پھر یکایک زمین میں ناحق بغاوت (فساد) کرنے لگتے ہیں، اے لوگو ! تمہاری بغاوت صرف تمہارے لیے ہی (مضر) ہے، دنیا کی زندگی کا کچھ فائدہ (اٹھالو) ، پھر تم نے ہماری طرف لوٹنا ہے، پھر ہم تمہیں ان کاموں کی خبردیں گے جو تم کرتے تھے (یونس : ٢٣۔ ٢٢ )

مصائب اور شدائد میں صرف اللہ کو پکارنا :

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا : اور جب ہم مصیبت پہنچنے کے بعد لوگوں کو رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو وہ اسی وقت ہماری آیتوں (کی مخالفت) میں سازشین کرنے لگتے ہیں۔ اب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان کے اس مکر کی مثال بیان فرما رہا ہے کہ جب انسان سمندر میں کسی کشتی میں بیٹھ کر سفر کرتا ہے ہوائیں اس کے موافق ہوتی ہیں پھر اچانک تیز آندھیا آتی ہیں، ہر طرف سے طوفانی لہریں اٹھتی ہیں اور وہ گرداب میں پھنس جاتا ہے اس وقت اس کو اپنے ڈوبنے کا یقین ہوجاتا ہے اور نجات کی بالکل امید نہیں ہوتی، اس پر سخت خوف اور شدید مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جن باطل معبودوں کی وہ اب تک پرستش کرتا آیا تھا، ان کی بےچارگی اس پر عیاں ہوجاتی ہے اور کٹر سے کٹر مشرک بھی اس وقت اللہ عزو جل کے سوا اور کسی کو نہیں پکارتا، اور اس کے علاوہ اور کسی سے دعا نہیں کرتا، اور جب تمام مخلوق سے امیدیں منقطع ہوجاتی ہیں تو وہ اپنے جسم اور روح کے ساتھ صرف اللہ عزو جل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور صرف اسی سے فریاد کرتا ہے۔ ام حکیم بنت الحارث عکرمہ بن ابی جہل کے عقد میں تھیں، فتح مکہ کے دن وہ اسلام لے آئیں اور ان کے خاوند عکرمہ مکہ سے بھاگ گئے۔ وہ ایک کشتی میں بیٹھے وہ کشتی طوفان میں پھنس گئی۔ عکرمہ نے لات اور عزی کی دہائی دی، کشتی والوں نے کہا اس طوفان میں جب تک اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کو نہیں پکارو گے کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اللہ کے سوا اس طوفان سے کوئی نجات نہیں دے سکتا، تب عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں، انہوں نے دل میں سوچا اگر سمندر میں صرف اللہ فریاد کو سنتا ہے تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی کام نہیں آسکتا، انہوں نے قسم کھائی کہ اگر اللہ نے مجھے اس طوفان سے بچا لیا تو میں پھر سیدھا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور اسلام قبول کرلوں گا، پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ (دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٩٨، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : اے بیٹے میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں تم اللہ (کے احکام) کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ (کی رضا) کی حفاظت کی کرو تم اس ( کی رحمت) کو اپنے سامنے پائو گے۔ جب تم سوال کرو تو صرف اللہ سے سوال کرو اور جب تم مدد طلب کرو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو۔ الحدیث۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥١٦، مسند احمد ج ١ ص ٢٩٣، ٣٠٣، ٣٠٧، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٢٨٩٩، ١٢٩٨٩، مشکوۃ رقم الحدیث : ٥٣٠٢ عمل الیوم واللیلہ لابن السنی رقم الحدیث : ٤٢٤ شعب الایمان رقم الحدیث : ١٧٤، ١٩٥، الآجری رقم الحدیث : ١٩٨، المستدرک ج ٣ ص ٥٤١، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣١٤، کتاب الآداب للبیہقی رقم الحدیث : ١٠٧٣)

ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی ١٠١٤ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : جب تم سوال کروتو صرف اللہ سے سوال کرو کیونکہ تمام عطائوں کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور تمام داد و دہش کی کنجیاں اسی کے قبضہ میں ہیں، اور دنیا اور آخرت کی ہر نعمت وہی بندوں تک پہنچاتا ہے اور دنیا اور آخرت کی ہر بلا اور مصیبت اسی کی رحمت سے دو رہوتی ہے، اس کی عطا میں کسی غرض اور کسی سبب کا شائبہ نہیں ہے کیونکہ وہ جواد مطلق اور بےنہایت غنی ہے سو صرف اسی کی رحمت کا امیدوار ہونا چاہیے اور صرف اسی کے غضب سے ڈرنا چاہیے اور تمام مہمات اور مشکلات میں اسی کی پانہ حاصل کرنی چاہیے اور تمام حاجات میں اسی پر اعتماد کرنا چاہیے اور اس کے غیر سے سوال نہ کیا جائے، کیونکہ اس کا غیر دینے پر قادر ہے نہ روکنے پر، دفع ضرر پر قادر ہے نہ تحصیل نفع پر کیو کہ وہ خود اپنی جانوں کے لیے کسی نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ نہ موت اور حیات کے مالک ہیں نہ روز قیامت اٹھانے کے مالک ہیں اور زبان حال سے اور زبان قال سے کسی وقت بھی اللہ سے سوال کرنے کو ترک نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں ہے جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٣، مشکوۃ رقم الحدیث : ٢٢٣٨)

سوال کرنے میں انکسار کے طریقہ کا اظہار ہے اور عجز کی سمت کا اقرار ہے اور رنج اور فاقہ کی پستی سے قوت اور طاقت کی بلندی کی طرف افتقار ہے، کسی نے کہا ہے کہ بنو آدم سوال کرنے سے غضب ناک ہوتے ہیں اور اللہ عز وجل سوال نہ کرنے سے غضب ناک ہوتا ہے اور جب تم دنیا اور آخرت کے کسی بھی کام میں مدد طلب کرنے کا ارادہ کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو، کیونکہ ہر زمانہ میں اور ہر مقام پر اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے اور اسی پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیج ج ١٠ ص ٥٤، مطبوعہ ممکتہب امدادیہ ملتان، ١٣٩٠ ھ)

پیر محمد کرم شاہ الازہری المتوفی ١٤١٩ ھ لکھتے ہیں : علامہ قرطبی نے یہاں بڑے نکتہ کی بات رقم فرمائی ہے کہ نفسیات انسانی کے اس تجزیہ سے معلوم ہوا کہ یہ چیز انسانی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ جب تکالیف کے مہیب سائے اسے گھیر لیتے ہیں تو اس کے دل میں اس وقت صرف اپنے رب حقیقی کا ہی خیال پیدا ہوتا ہے، اور اسی کے دامن رحمت میں پناہ کی امید بندھتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر مضطر اور پریشان حال کی التجاء باقی رہ جاتا ہے۔ (ضیاء القرآن ج ٢ ص ٢٩١، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور۔ ٢، ١٤٠٢ ھ)

علامہ آلوسی، شیخ شوکانی اور نواب بھوپالی کا انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام سے استمداد کو ناجائز قرار دینا علامہ سید محمد آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی صورت حال میں کٹر سے کٹر مشرک بھی صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی کو پکارتا ہے لیکن تم جانتے ہو گے کہ آج کل بعض مسلمان جب خشکی یا سمندر میں کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو ان کو پکارتے ہیں جو کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کے مالک نہیں ہیں، وہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں۔ ان میں سے بعض خضر اور الیاس کو پکارتے ہیں اور بعض ابو الحمیس اور عباس کو پکارتے ہیں اور بعض مشائخ امت میں سے کسی شیخ کو پکارتے ہیں اور تم نہیں دیکھو گے کہ ان میں سے کوئی صرف اللہ عزو جل کو پکارتا ہو اور کسی کے دل میں خیال نہیں آتا کہ اس پریشانی سے صرف اللہ تعالیٰ ہی نجات دے سکتا ہے، سوچو کہ جس حالت کا اللہ تعالیٰ نے نقشہ کھینچا ہے، اس حال میں ان مشرکین کا عمل ہدایت کے زیادہ قریب تھا یا ان مسلمانوں کا عمل ہدایت کے زیادہ قریب ہے، اب جو گمراہی کی موجیں شریعت کی کشتی سے ٹکرا رہی ہیں اور غیر اللہ سے استمداد کو جو نجات کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اس کی صرف اللہ سے ہی شکایت ہے اور عارفیں پر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ (روح المعانی ج ٧ ص ١٤٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

شیخ محمد بن علی شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ اور نواب صدیق حسن بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ مخلوق کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ مشکلات اور شدائد میں صرف اللہ کی طرف رجوع کریں اور جو شخص مصیبت کے گرداب میں پھنسا ہوا ہو اور وہ اس وقت صرف اللہ کو پکارے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے خواہ وہ مشرک ہو اور کافر ہو اور یہ کہ ایسی صورت حال میں مشرکین بھی اپنے بتوں کو نہیں پکارتے تھے صرف اللہ سے دعا کرتے تھے۔ تو اس پر کس قدر تعجب ہوتا ہے کہ اب اسلام میں ایسی چیزیں پیدا ہوگئی ہیں کہ لوگ ایسی حالت میں خدا کے بجائے وفات یافتہ بزرگوں کو پکارتے ہیں اور جس طرح مشرکین نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی وہ ایسا نہیں کرتے، غور کرو کہ ان شیطانی معتقدات نے لوگوں کو کہاں پہنچا دیا ہے۔ اور ان کے دل و دماغ پر کس طرح قبضہ کرلیا ہے کہ وہ ایسا عمل کر رہے ہیں جس کی مشرکین سے بھی توقع نہیں تھی، انا للہ و انا الیہ راجعون (فتح القدیر ج ٢ ص ٦١١ مطبوعہ دارالوفاء بیروت، ١٤١٩، فتح البیان ج ٢ ص ٤٠، ٣٩ مطبوعہ المکتبہ العصریہ بیروت، ١٤١٩ ھ) 

علامہ آلوسی وغیرہ کی عبارات پر تبصرہ

علامہ آلوسی کا انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام سے استمداد کو بالکل ناجائز قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے، اور اسی طرح علامہ شوکانی اور نواب صدیق حسن بھوپالی کا مشکلات میں فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کو شیطانی معتقدات قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس سے بشمول صحابہ کرام بکثرت صالحین امت کے عقائد کو شیطانی قرار دینا لازم آئے گا۔ امام محمد اثیر جزری متوفی ٦٣٠ ھ لکھتے ہیں : حضرت خالد بن ولید نے دشمن کو للکارا پھر مسلمانوں کے معمول کے مطابق پکارا یا محمد اہ پھر وہ جس شخص کو بھی للکارتے اس کو قتل کردیتے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٢٤٦، البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ٣٢٤)

امام ابن ابی شیبہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ کراماً کاتبین کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے ” اے اللہ کے بندو ! تم پر اللہ رحم فرمائے میری مدد کرو۔ “ (المصنف ج ١٠ ص ٣٩٠، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، ١٤٠٦ ھ)

خود علامہ محمد بن علی شوکانی متوفی ١٢٥٠ لکھتے ہیں : امام بزار نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے ” اے اللہ کے بندو ! اس کو روک لو “ کیونکہ زمین میں اللہ کے لیے کچھ روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ج ٤ ص ٣٤)

اس حدیث کو امام ابو یعلی موسلی (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٥٢٦٩) امام طبرانی (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٥١٨) اور

امام ابن السنی (عمل الیوم واللیلہ ص ١٦٢، مطبوعہ حیدر آباد دکن) نے روایت کیا ہے۔ علامہ الہیثمی نے کہا اس میں ایک راوی معروف بن حسان ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢)

علامہ نووی نے اس حدیث کو امام ابن السنی کی کتاب سے نقل کرنے کے بعد کہا مجھ سے بعض بہت بڑے علماء نے یہ کہا ہے کہ ایک ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی۔ ان کو اس حدیث کا علم تھا، انہوں نے یہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت اس سواری کو روک دیا، اور ایک مرتبہ میں ایک جماعت کے ساتھ تھا، ہمارے ساتھ جو سواری تھی وہ بھاگ گئی، سب اس کو روکنے سے عاجز آگئے، میں نے یہ کلمات کہے تو اسی وقت وہ سواری بغیر کسی سبب کے رک گئی۔ (الاذکار ص ٢٠١)

امام طبرانی نے حضرت عتبہ بن غزوان (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے اور وہ کسی اجنبی جگہ پر ہو تو اس کو یہ کہنا چاہیے ” اللہ کے بندو ! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو “ کیونکہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے۔ (المعجم الکبیر ج ١٧ ص ١١٨۔ ١١٧)

حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ یہ امر مجرب ہے، اس کے راویوں کی توثیق کی گء ہے باوجود اس کے کہ بعض میں ضعیف ہے البتہ زید بن علی نے عتبہ کو نہیں پایا۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢)

اور امام بزار نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک کرامًا کاتبین کے سوا زمین میں اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں، جب تم میں سے کسی کو جنگل کی زمین میں کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کو چاہیے وہ بلند آواز کہے : اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار رقم الحدیث : ٣١٢٩، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٦٧)

حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢) اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد طلب کرنے پر دلیل ہے جن کو انسان نہیں دیکھتے جو اللہ کے بندوں میں سے فرشتے اور نیک جن ہیں، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ جب اس کی سواری گرجائے یا پھسل جائے یا گم ہوجائے تو وہ بنو آدم سے مدد طلب کرے۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٥٦۔ ١٥٥ مطبوعہ مطیع مصطفیٰ البابی مصر، ١٣٥٠، ص ٢٠٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٠٨ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ اپنے منہیہ میں لکھتے ہیں : علامہ زیادہ نے مقرر رکھا ہے کہ انسان کی جب کوئی چیزضائع ہوجائے اور وہ یہ ارادہ کرے کہ اللہ سبحانہ اس کی چیز واپس کر دے تو اس کو چاہیے کہ وہ قبلہ کی طرف منہ کر کے کسی بلند جگہ کھڑا ہو، اور سورة الفاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچائے پھر اس کا ثواب سیدی احمد بن علوان کو پہنچائے اور یہ کہے : اے سیدی ! اے احمد بن علوان ! اگر آپ نے میری گم شدہ چیز واپس نہ کی تو میں آپ کا نام دیوان اولیاء سے نکال دوں گا تو جو شخص یہ کہے گا اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے اس کی گم شدہ چیز واپس کر دے گا، اجہوری مع زیادۃ، اسی طرح دائودی (رح) کی شرح المنہج میں ہے۔ (رد المختار، دارالکتب العربیہ مصر، ج ٣ ص ٣٥٥، مصر ١٣٢٧ ھ، ج ٣ ص ٣٢٤، داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

حافظ ابن اثیر اور حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد صحابہ کرام اپنی مہمات میں یا محمد اہ پکارتے تھے، علامہ شوکانی نے متعدد احادیث کے حوالوں سے لکھا ہے کہ فرشتوں اور نیک جنوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور علامہ شامی نے متعدد علماء کے حوالوں سے لکھا ہے کہ سیدی احمد علوان کی وفات کے بعد ان سے مدد طلب کرنا جائز ہے، اب اگر علامہ آلوسی، علامہ شوکانی اور نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی تصریحات کے مطابق انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے مدد طلب کرنے کو ناجائز اور شیطانی عقیدہ قرار دیا جائے تو بشمول صحابہ تمام صالحین امت کو شیطانی عقیدہ کا حامل قرار دینا لازم آئے گا۔ 

وفات یافتہ بزرگوں سے استمداد کے معاملہ میں راہ اعتدال ہرچند کہ قرآن مجید میں وفات شدہ بزرگوں کو پکارنے اور ان سے مدد طلب کرنے کی کہیں تصریح نہیں ہے لیکن اس سلسلہ میں احادیث اور آثار موجود ہیں جو ہم الفا تحہ : ٤ میں بیان کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ علماء اسلام کی بکثرت نقول ہیں اور ان سب کو شرک اور گمراہی پر مجتمع قرار دینا درست نہیں ہے، اب حال یہ ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی قید اور بغیر کسی استثناء کے وفات شدہ بزرگوں کو پکارتے ہیں اور ان ہی کے نام کی دہائی دیتے ہیں، اور ان کے زندیک افضل اور اولی یہی ہے کہ وفات شدہ بزرگوں کو پکارتے ہیں اور ان ہی کے نام کی دہائی دیتے ہیں، اور ان کے نزدیک افضل اور اولی یہی ہے کہ وفات شدہ بزرگوں سے مدد طلب کی جائے اور اللہ کو پکارنے اور اس سے مدد طلب کرنے کو وہ وہابیت اور نجدیت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بعض احادیث اور آثار اور بعض صوفیاء کرام اور بعض علماء کی نقول سے اگر کچھ ثابت بھی ہوتا ہے تو وہ یہ ہے کہ وفات شدہ بزرگوں کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا جائز ہے، شرک نہیں ہے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ عزو جل کو چھوڑ کر صرف ان کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا افضل اور اولی ہے، اور یہ بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد کا ثبوت قطعی اور یقینی ہے۔ اور اس کو پکارنا بہر حال اللہ تعالیٰ کی عبادت اور کارثواب نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، غوث اعظم اور دیگر اولیاء کرام سے کوئی مدد طلب کرے تو اس کے رد میں انبیاء کرام اور اولیاء عظما پر وہ آیات چسپاں کرتے ہیں جو بتوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کی امداد کا مظہر مانا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے حاجت روائی کرتے ہیں اور اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا لہذا یہ شرک اور کفر نہیں ہے، لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ تعالیٰ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اسے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ بہرحال ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دیدے اور طاقت عطا فرمائے لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ سے اور ہرحال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے، اسے سننے کے لیے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لیے کسی کی قوت آفرینی کی حاجت نہیں ہے تو پھر کیوں نہ صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی سے مدد طلب کی جائے جبکہ پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اسی کی دعوت دی ہے، کہ اسی کو پکارو، اسی سے دعا کرو اور سے سے مدد طلب کرو، اور جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی شدائد، مشکلات اور اپنی حاجات میں اسی کی طرف رجوع کرتے تھے، اسی کو پکارتے تھے اور اسی سے دعا کرتے تھے تو کیوں نہ ہم بھی اپنی مشکلات اور حاجات میں اس کارساز حقیقی کی طرف رجوع کریں اور انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کی اتباع کریں ! نیز اس پر غور کرنا چاہیے کہ انبیاء و اولیاء کو مستقل سمجھ کر ان سے مدد مانگنا شرک ہے، لیکن انہیں ایک وسیلہ، سبب اور مظہر امداد الہی جان کر ان کی طرف رجوع کرنا کسی طرح ایمان و اسلام کے خلاف نہیں ہے۔

بغاوت کا معنی اور اس کے متعلق احادیث :

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے لوگو ! تمہاری بغاوت صرف تمہارے لیے ہی ( مضر) ہے۔

علامہ حسین بن راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : فعاد میں حد سے تجاوز کرنے کو بغاوت کرتے ہیں، عورت کی فحاشی اور بدکاری کو بھی بغاوت کہتے ہیں کیونکہ یہ بھی فساد بھی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ولا تکر ھو افتیاتکم علی البغآء ان اردن تحصنًا۔ (النور : ٣٣) جب تمہاری باندیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہوں تو ان کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ تکبر کو بھی بغاوت کہتے ہیں کیونکہ اس میں حد سے تجاوز ہے، اور جس چیز میں بھی حد سے تجاوز ہو اس کو بغاوت کہتے ہیں۔ امام کی اطاعت سے خروج کرنے کو بھی بغاوت کہتے ہیں۔ خواہش نفس کے مقابلہ میں اللہ عزو جل کے احکام کو ترک کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرکشی کرنا یہ بھی بغاوت ہے، ان آیات میں بغاوت اسی معنی میں ہے : یبغون فی الارض بغیر الحق۔ (یونس : ٢٣ ): زمین میں ناحق بغاوت کرتے ہیں۔ انما بغیکم علیٓ انفسکم۔ (یونس : ٢٣) اے لوگو ! تمہاری بغاوت صرف تمہارے لیے (ہی) مضر ہے۔

امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوبکر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بغاوت اور رشتہ توڑنے سے زیادہ کوئی گناہ اس کا مستحق نہیں ہے کہ اس گناہ کے مرتکب پر اللہ جلد عذاب نازل فرمائے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٦٠)

امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر ایک پہاڑ بھی دوسرے پہاڑ کے خلاف بغاوت کرے تو بغاوت کرنے والا ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ (الادب المفرد رقم الحدیث : ٥٨٨، شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٦٩٣)

امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں ابو جعفر محمد بن علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ دعا کرنے سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے، تقدیر کو صرف دعا ٹال دیتی ہے، نیکی کا ثواب بہت جلد ملتا ہے، اور بغاوت کی سزا بھی جلد ملتی ہے، کسی شخص کے عیب کے لیے یہ کافی ہے کہ اسے دوسرے لوگوں میں وہ چیزیں نظر آئیں جو اسے اپنے اندر نظر نہیں آتیں، اور وہ لوگوں کو ایسی چیزوں کا حکم دے جن کو وہ خود نہیں چھوڑ سکتا، اور وہ بےفائدہ باتوں سے اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کو ایذاء پہنچائے۔ (الدرالمنثور ج ٤ ص ٣٥٣۔ ٣٥٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ)

حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سازش کرو اور نہ سازش کرنے والے کی مدد کرو، نہ بغاوت کرو اور نہ بغاوت کرنے والے کی مدد کرو، نہ عہد شکنی کرو اور نہ عہد شکنی کرنے والے کی مدد کرو۔ (المستدرک ج ٢ ص ٣٣٨، شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٦٧١)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 22