أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَآءُ سَيِّئَةٍ ۢ بِمِثۡلِهَا ۙ وَتَرۡهَقُهُمۡ ذِلَّـةٌ  ؕ مَا لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ عَاصِمٍ‌‌ ۚ كَاَنَّمَاۤ اُغۡشِيَتۡ وُجُوۡهُهُمۡ قِطَعًا مِّنَ الَّيۡلِ مُظۡلِمًا ‌ؕ اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ ؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور جن لوگوں نے برے کام کیے ان کو ان ہی کی مثل بری سزا ملے گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، گویا ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیے گئے۔ وہی دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جن لوگوں نے برے کام کئے ان کو ان ہی کی مثل بری سزا ملے گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، گویا ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیئے گئے، وہی دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (یونس : ٢٧ )

محشر میں کفار کی ذلت اور رسوائی :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اخروی احوال اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں اللہ عزو جل کفار کے اخروی احوال اور ان کے عذاب کا بیان فرما رہا ہے، کفار کے اخروی احوال میں سے اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل چار امور بیان فرمائے ہیں :

(١) ایک جرم کی ایک ہی سزا ملے گی، اور اس کو بیان کرنے سے مقصود نیکی اور برائی کی جزا اور سزا کا فرق بیان کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی جزا دس گنا، سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے اور ایک برائی کی ایک ہی سزا دیتا ہے تاکہ انسان نیکی کی طرف راغب ہو اور برائی سے متنفر ہو۔

(٢) ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، اس میں ان کی تحقیر اور توہین کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ونحشرھم ی۔ وم القیمۃ علی وجوھھم عمیًاو بکمًا و صمًا۔ (نبی اسرائیل : ٩٧) ہم قیامت کے دن ان کو چہروں کے بل اٹھائیں گے، اس حال میں کہ وہ اندھے اور گونگے اور بہرے ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن اٹھنے والیل لوگوں کی تین قسمیں ہوں گی : ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جو پیدل چل رہے ہوں گے (یعنی عام مسلمان اور ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جو سواری پر ہوں گے (یعنی اولیاء اللہ) اور ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جو اپنے چہروں کے بل چل رہے ہوں گے، (یعنی کفار) عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! وہ اپنے چہروں کے بل کیسے چلیں گے ؟ فرمایا : جس ذات نے ان کو، ان کے قدموں سے چلایا ہے کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان کو چہروں کے بل چلائے ؟ وہ ہر بلندی اور ہر کانٹے سے اپنے چہروں سے بچ رہے ہوں گے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٤٢، مسند احمد ج ٢ ص ٤٧٠ رقم الحدیث : ٨٦٦٨، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٥٦) اس حدیث میں ان کی تذلیل اور تحقیر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے چہروں سے ہاتھوں اور پیروں کا کام لیں گے، کیونکہ جس ذات نے ان کو پیدا کیا اور ان کو حسین صورت دی، انہوں نے اس ذات کے لیے اپنے چہروں سے ہاتھوں اور پیروں کا کام لیں گے، کیونکہ وہ چہرہ ذلیل ہو کر پیروں کا کام کرے گا جس سے وہ چل رہے ہوں گے اور ہاتھوں کا کام کرے گا جس سے وہ راستے کی تکلیف دہ چیزوں کو ہٹائیں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ان کی رسوائی بیان کرتے ہوئے فرمایا : یعرف المجرمون بسیمھم فیوخذ بالنو اصی والاقدامٍ ۔ (الرحمن : ٤١) مجرم اپنی علامتوں سے پہچانے جائیں گے انہیں پیشانی کے بالوں اور پائوں سے پکڑا جائے گا۔ حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا : اس کے سر اور پیر کو اکٹھا کر کے رسی سے باندھ دیا جائے گا۔ (البدور السافرۃ رقم الحدیث : ١٤٢٨) ضحاک نے اس کی تفسیر میں کہا : اس کی پیشانی اور اس کے پیروں کو پکڑ کر اس کی پشت کے پیچھے سے زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جائے گا۔ (البدور السافرۃ رقم الحدیث : ١٤٢٩)

(٣) ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے، ہاں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور شفاعت کی اجازت دے گا اس کی شفاعت سے گنہگار عذاب سے نجات پائیں گے اور سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گنہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے ان کی عذاب سے نجات ہوگی یا عذاب میں تخفیف ہوگی اور بعض کفار مثلاً ابو طالب کے عذاب میں بھی تخفیف کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ کی وجہ سے ابو لہب کے عذاب میں بھی تخفیف ہوگی اور حسب ذیل احادیث میں اس پر دلیل ہے : حضرت عباس بن عبدالمطلب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ابو طالب کو کچھ فائدہ پہنچایا وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے غضب ناک ہوتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں وہ بہ مقدار تخنوں کے آگ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٣، ٦٢٠٨، ٦٥٧٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٩) عروہ نے کہا : ثوبیہ ابو لہب کی باندی تھی، ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دودھ پلایا تھا جب ابو لہب مرگیا تو اس کے بعض اہل نے اس کو برے حال میں (خواب میں) دیکھا، اس سے پوچھا : تمہارے ساتھ کیا ہوا ؟ ابو لہب نے کہا تم سے جدا ہونے کے بعد مجھے کوئی راحت نہیں ملی البتہ ثوبیہ کو میرے آزاد کرنے کی وجہ سے مجھے اس (انگلی) سے پلایا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٠١، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٣٩٥٥) محدث رزین کی روایت میں ہے کہ ابو لہب کو خواب میں حضرت عباس نے اسلام لانے کے بعد یکھا تھا، اس کی بری حالت تھی۔ حضرت عباس (رض) نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا، اس نے کہا تمہارے بعد مجھے کوئی راحت نہیں ملی البتہ ہر پیر کی رات کو اس (یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی) سے پلایا جاتا ہے، کیونکہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔ (جمع الفوائد رقم الحدیث : ٤١٩٨، مطبوعہ دارابن حزم کو یت، ١٤١٨ ھ) حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ حضرت عباس نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ابو لہب کو خواب میں دیکھا تھا، اور کفار کے عذاب میں بطریق عدل تخفیف نہیں ہوتی لیکن چونکہ ابو لہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نیکی کی تھی اس لیے بطریق فضل اس کے عذاب میں تخفیف فرما دی۔ (فتح الباری ج ٩ ص ١٤٦۔ ١٤٥، ملحضًا، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ) گویا ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیئے گئے، اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں کفار کا حال مسلمانوں کے برعکس ہوگا کیونکہ اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی نہ ذلت۔ قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں میں بھی یہ بیان فرمایا ہے کہ کافروں کے چہرے سیاہ ہوں گے : وجوہ یومئذٍ مسفرۃ ’‘ ضاحکۃ مستبشرۃ ’‘ ووجوہ یومئذٍ علیھا غبرۃ ’‘ ترھقہا قترۃ اولٓئک ھم الکفرۃ الفجرۃ (عبس : ٤٢۔ ٣٨) بہت سے چہرے اس دن چمکتے ہوں گے مسکراتے ہوئے شاداں وفرحاں اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے ان پر سیاہی چھائی ہوگی یہی لوگ ہیں جو کافربدکار ہیں۔ یوم تبیض وجوہ ’‘ و تسود و جوہ ’‘ ط فاما الذین اسودت وجوھھم اکفرتم بعد ایمانکم۔ الایہ۔ (آل عمران : ١٠٦) جس دن بہت سے چہرے سفید ہوں گے اور بہت سے چہرے سیاہ ہوں گے، رہے وہ چہرے جو سیاہ ہوں گے (تو ان سے کہا جائے گا) کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے۔ ویوم القیمۃ الذین کذبوا علی اللہ وجوھھم مسود ۃ ’‘ (الزمر : ٦٠) اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا آپ دیکھیں گے قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 27