یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۷۳)

اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی) جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پر (ف۱۷۳) اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی

(ف173)

کافِروں پر تو تلوار اور حرب سے اور منافقوں پر اقامتِ حُجّت سے ۔

یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ-وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْۚ-وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًاۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۷۴)

اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا (ف۱۷۴) اور بےشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آ کر کافر ہوگئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا (ف۱۷۵) اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا (ف۱۷۶) تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے اور اگر منہ پھیریں (ف۱۷۷) تو اللہ انہیں سخت عذاب کرے گا دنیاو آخرت میں اور زمین میں کوئی نہ ان کاحمایتی ہوگا نہ مددگار(ف۱۷۸)

(ف174)

شانِ نُزول : امام بغوی نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جلاس بن سوید کے حق میں نازِل ہوئی ۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک میں خُطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بد مآ ۤلی کا ذکر فرمایا یہ سن کر جلاس نے کہا کہ اگر محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں تو ہم لوگ گدہوں سے بد تر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو عامر بن قیس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلاس کا مقولہ بیان کیا ، جلاس نے انکار کیا اور کہا کہ یارسولَ اللہ عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں ، جلاس نے بعد عصر منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللہ کی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی اور عامر نے اس پر جھوٹ بولا پھر عامر نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک یہ مقولہ جلاس نے کہا اور میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا پھر عامر نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کے حضور میں دعا کی یاربّ اپنے نبی پر سچے کی تصدیق نازِل فرما ۔ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازِل ہوئے آیت میں” فَاِنْ یَّتُوْبُوْا بِکُ خَیْراً لَّھُمْ ” سن کر جلاس کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یارسولَ اللہ سنئے اللہ نے مجھے توبہ کا موقع دیا ، عامر بن قیس نے جو کچھ کہا سچ کہا ، میں نے وہ کلمہ کہا تھا اور اب میں توبہ و استغفار کرتا ہوں حضور نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ توبہ پر ثابت رہے ۔

(ف175)

مجاہد نے کہا کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے عامر کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا ۔

(ف176)

ایسی حالت میں ان پر شکر واجب تھا نہ کہ ناسپاسی ۔

(ف177)

توبہ و ایمان سے اور کُفر و نفاق پر مُصِر رہیں ۔

(ف178)

کہ انہیں عذابِ الٰہی سے بچا سکے ۔

وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵)

اور ان میں کوئی وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دےگا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہوجائیں گے (ف۱۷۹)

(ف179)

شانِ نُزول : ثعلبہ بن حاطب نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی اس کے لئے مالدار ہونے کی دعا فرمائیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے اس بہت سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کر سکے ، دوبارہ پھر ثعلبہ نے حاضر ہو کر یہی درخواست کی اور کہا اسی کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق والے کا حق ادا کروں گا ۔ حضورنے دعا فرمائی اللہ تعالٰی نے اس کی بکریوں میں برکت فرمائی اور اتنی بڑھیں کہ مدینہ میں ان کی گنجائش نہ ہوئی تو ثعلبہ ان کو لے کر جنگل میں چلا گیا اور جمعہ و جماعت کی حاضری سے بھی محروم ہوگیا ۔ حضور نے اس کا حال دریافت فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ اس کا مال بہت کثیر ہوگیا ہے اور اب جنگل میں بھی اس کے مال کی گنجائش نہ رہی ۔ حضورنے فرمایا کہ ثعلبہ پر افسوس پھر جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ کے تحصیل کرنے والے بھیجے ، لوگوں نے انہیں اپنے اپنے صدقات دیے جب ثعلبہ سے جا کر انہوں نے صدقہ مانگا اس نے کہا یہ تو ٹیکس ہوگیا ، جاؤ میں سوچ لوں جب یہ لوگ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے تو حضور نے ان کے کچھ عرض کرنے سے قبل دو مرتبہ فرمایا ” ثعلبہ پر افسوس ” تو یہ آیت نازِل ہوئی پھر ثعلبہ صدَقہ لے کر حاضر ہوا تو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے اس کے قبول فرمانے کی ممانعت فرما دی ۔ وہ اپنے سر پر خاک ڈال کر واپس ہوا پھر اس صدَقہ کو خلافتِ صدیقی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا پھر خلافتِ فاروقی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافتِ عثمانی میں یہ شخص ہلاک ہوگیا ۔ (مدارک)

فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۷۶)

تو جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے

فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۷۷)

تو اس کے پیچھے اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ جھوٹا کیا اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے تھے (ف۱۸۰)

(ف180)

امام فخر الدّین رازی نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نِفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے ۔

حدیث شریف میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے خلاف کرے ، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِۚ(۷۸)

کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ ان کے دل کی چھپی اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور یہ کہ اللہ سب غیبوں کا بہت جاننے والا ہے (ف۱۸۱)

(ف181)

اس پر کچھ مخفی نہیں منافقین کے دلوں کی بات بھی جانتا ہے اور جو آپس میں وہ ایک دوسرے سے کہیں وہ بھی ۔

اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْؕ-سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۹)

وہ جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں(ف۱۸۲)اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے (ف۱۸۳) تو ان سے ہنستے ہیں (ف۱۸۴) اللہ ان کی ہنسی کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے

(ف182)

شانِ نُزول : جب آیت صدقہ نازِل ہوئی تو لوگ صدقہ لائے ان میں کوئی بہت کثیر لائے انہیں تو منافقین نے ریا کار کہا اور کوئی ایک صاع ( 2/ 1 ۔ 3سیر ) لائے تو انہیں کہا اللہ کو اس کی کیا پرواہ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کی رغبت دلائی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف چار ہزار درہم لائے اور عرض کیا یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا کل مال آٹھ ہزار درہم تھا چار ہزار تویہ راہِ خدا میں حاضر ہے اور چار ہزار میں نے گھر والوں کے لئے روک لئے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو تم نے دیا اللہ اس میں برکت فرمائے اور جو روک لیا اس میں بھی برکت فرمائے ، حضور کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کا مال بہت بڑھا یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے دو بیبیاں چھوڑیں انہیں آٹھواں حصہ ملا جس کی مقدار ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم تھی ۔

(ف183)

ابو عقیل انصاری ایک صاع کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور انہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا کہ میں نے آج رات پانی کھینچنے کی مزدوری کی ، اس کی اجرت دو صاع کھجوریں ملیں ، ایک صاع تو میں گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا اور ایک صاع راہِ خدا میں حاضر ہے ۔ حضور نے یہ صدَقہ قبول فرمایا اور اس کی قدر کی ۔

(ف184)

منافقین اور صدَقہ کی قلّت پر عار دلاتے ہیں ۔

اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ-اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۸۰)

تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو اگر تم ستر بار ان کی معافی چاہو گے تو اللہ ہرگز انھیں نہیں بخشے گا (ف۱۸۵) یہ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے منکر ہوئے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا (ف۱۸۶)

(ف185)

شانِ نُزول : اوپر کی آیتیں جب نازِل ہوئیں اورمنافقین کا نِفاق کھل گیا اور مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا تو منافقین سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے معذرت کر کے کہنے لگے کہ آپ ہمارے لئے استِغفار کیجئے ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالٰی ہر گز ان کی مغفرت نہ فرمائے گا چاہے آپ استِغفار میں مبالغہ کریں ۔

(ف186)

جو ایمان سے خارج ہوں جب تک کہ وہ کُفر پر رہیں ۔ (مدارک)