أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ لَـكُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ فَجَعَلۡتُمۡ مِّنۡهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا ؕ قُلۡ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَـكُمۡ‌ اَمۡ عَلَى اللّٰهِ تَفۡتَرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ اللہ نے تمہارے لیے جو رزق نازل کیا، پس تم نے اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال قرار دے دیا، آپ کہیے کہ اللہ نے تم کو اس کا حکم دیا تھا یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہئے کہ اللہ نے تمہارے لیے جو رزق نازل کیا پس تم نے اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال قرار دے دیا، آپ کہئے کیا اللہ نے تم کو اس کا حکم دیا تھا یا تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھ رہے ہو اور جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھ رہے ہیں ان کا قیامت کے متعلق کیا گمان ہے ؟ بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے (یونس : ٦٠۔ ٥٩ )

مشرکین کی خود ساختہ شریعت کی مذمت

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر بہ کثرت دلائل قائم فرماتے تھے، ان کے سوالات کے جوابات دیئے اور ان کے شبہات کو زائل فرمایا، اس کے بعد ان کے خود ساختہ مذہب کا رد فرمایا کہ انہوں نے بعض چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور بعض چیزوں کو حرام کہا ہے، حالانکہ ان کی بنائی ہوئی اس حلت اور حرمت پر عقل شاہد ہے نہ نقل۔ انہوں نے جن چیزوں کو حلال اور حرام کیا ہوا تھا اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے : وقالوا ھذہٖٓ انعام ’‘ و حرث ’‘ حجر ’‘ لا یطعمھآ الا من نشآء بزعمھم وانعام ’‘ حرمت ظھورھا وانعام ’‘ لایذکرون اسم اللہ علیھا افترآئً علیہ ط سیجزیھم بما کانوا یفترونو قالوا مافی بطون ھذہ الانعام خالصۃ ’‘ لذکورنا و محرم ’‘ علیٓ ازواجنا وان یکن میتہً فھم فیہ شر کآء ط سیجزیھم وصقفھم ط، انہ حکیم ’‘ علیم ’‘(الانعام : ١٣٩۔ ١٣٨) اور انہوں نے کہا یہ مویشی اور کھیت ممنوع ہیں، اس کو وہی کھا سکتا ہے جس کو ان کے زعم کے مطابق ہم چاہیں، اور کچھ مویشی ایسیے ہیں جن کی پیٹھوں کو (سواری اور بوجھ کے لیے) حرام کیا گیا، اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن پر وہ (ذبح کے وقت) اللہ کا نام نہیں لیتے، اللہ پر افتراء کرتے ہوئے، عنقریب اللہ ان کو ان کے افتراء کی سزا دے گا اور انہوں نے کہا ان مویشیوں کے پیٹ میں جو (بچہ) ہے وہ ہمارے مردوں کے ساتھ خاص ہے اور ہماری بیویوں پر وہ حرام ہے اور اگر وہ (بچہ) مردہ ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہیں، عنقریب اللہ ان کو ان احکام گھڑنے کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا بہت علم والا ہے۔ ما جعل اللہ من بحیرۃٍ و لا سآئبۃٍ و لا وصیلۃٍو لا حامٍ و لکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب ط واکثرھم لا یعقلون۔ (المائدہ : ١٠٣) اللہ نے کوئی بحیرہ مقرر نہیں کیا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی لیکن کفار جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان باندھتے ہیں اور ان کے اکثر لوگ عقل نہیں رکھتے۔ ابن المسیب نے کہا : بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ دوہنا بتوں کی وجہ سے روک دیا جائے اور کوئی شخص اس کا دودھ نہیں دوہتا تھا اور سائبہ وہ اونٹنی ہے جس کو وہ بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے اور کوئی شخص اس کا دودھ نہیں دوہتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عمرو بن عامر الخزاعی کو دیکھا وہ دوزخ میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے سائبہ کو بتوں کے لیے چھوڑا، اور وصیلہ وہ اونٹنی ہے جو مسلسل اونٹنیاں جنے اور درمیان میں نر پیدا نہ ہو، اور حامی وہ اونٹ ہے جو معین مرتبہ جفتی کرے، اس کو بھی بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے اور اس پر بوجھ نہیں لادا جاتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٢٣) اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حلال اور حرام کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب ہے، اور کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے، وارجب کسی عالم یا مفتی سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ سستی اور لاپرواہی سے کام نہ لے، اور بغیر کسی شرعی دلیل کے از خود کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہ دے، ہمارے زمانہ میں یہ وبا بہت عام ہے۔ تقوی اور پرہیز گاری کے مدعی علماء سنن اور مستحبات کو اپنی طرف سے فرض اور واجب کہتے ہیں، اور مکروہات کو حرام کہتے ہیں۔ وہ اپنی رائے سے شریعت سازی کرتے ہیں اور انہیں کوئی خدا کا کو ف نہیں ہوتا ! اس کے بعد فرمایا : اور جو لوگ اللہ پر بہتان باندھ رہے ہیں ان کا قیامت کے متعلق کیا گمان ہے ؟ یعنی یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کیا قیامت کے دن ان کو بغیر سزا کے چھوڑ دیا جائے گا، اور یہ لوگ جو دنیا میں اللہ پر بہتان باندھتے رہے ہیں ان کو، کوئی سزا نہیں دی جائے گی ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ام لھم شرکٓؤ شرعوا لھم من الدین مالم یاذن بہ اللہ ط و لولاکلمۃ الفصل لقضی بینھم۔ (الشوری : ٢١) کیا ان کے لیے شرکاء ہیں، جنہوں نے ان کے لیے دین کے وہ احکام مقرر کردیئے جن کو اللہ نے اجازت نہیں دی، اور اگر (قیامت کے دن) فیصلہ کی بات نہ ہوچکی ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ پھر فرمایا : بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل عطا فرمائی اور اپنی رحمت سے ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک عظیم نبی بھیجا جس نے لوگوں کو حلال اور حرام کی تعلیم دی اور دین کے احکام بیان فرمائے اور ان کو اپنے فضل سے رزق عطا فرمایا اور ان کے لیے منافع کو مباح کردیا لیکن چیزوں کے حلال اور حرام کرنے کا اختیار صرف اپنے پاس رکھا تاکہ لوگ احکام شریعہ میں تصرف نہ کرنے لگیں جیسا کہ احبار اور رہبان تصرف کرتے تھے۔ 

تقشف اور بناوٹی زہد اللہ کی نا شکری ہے پھر فرمایا : لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے، یعنی یہ لوگ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی ناقدری کرتے ہیں اور اس کے رسول کی پیروی نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان میں سے بعض کو اپنے اوپر حرام کرلیتے ہیں اور بلاوجہ اپنے اوپر تنگی کرتے ہیں جیسے مشرکین نے بعض حلال جانوروں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور جیسے بعض عیسائیوں نے رہبانیت کی بدعت نکالی اور اپنے اوپر دنیا کی نعمتوں کا دروازہ بند کرلیا، وہ تارک الدنیا ہو کر خانقاہوں میں گوشہ نشین ہوگئے، اسی طرح آج کل کے مسلمانوں نے دین میں بدعتیں نکالیں اور غاروں اور جنگلوں میں چلہ کشی اور نفس کشی شروع کردی اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی لذیز اور عمدہ کھانے پینے کی چیزوں اور اچھے کپڑوں اور آرام اور آرائش کی دیگر چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور اس کو زہد اور فقر کا نام دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکم نہیں دیا، اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے : لینفق ذوسعۃٍمن سعتہٖ ۔ (الطلاق : ٧) اور فراخ دست کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے خرچ میں میانہ روی کا حکم دیا ہے : والذین اذآانفقوا لم یسر فوا ولم یقتروا وکان بین ذالک قوامًا۔ (الفرقان : ٦٧) اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو بےجا خرچ نہیں کرتے اور نہ تنگی سے کام لیتے ہیں اور ان کا خرچ معتدل ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بلا وجہ تنگ دستی، تقشف اور بدحالی کی زندگی گزارنے کو ناپسند فرمایا ہے : ابو الاحوص اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس وقت میں نے معمولی اور گھٹیا کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! آپ نے پوچھا کس قسم کا مال ہے ؟ میں نے عرض کیا ہر قسم کا کا مال ہے، اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، گائے، بکریاں گھوڑے اور غلام سب کچھ عطا فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا : جب اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو تم پر اس کی نعمتوں اور کرامتوں کا اثر دکھائی دینا چاہیے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٠٦٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٢٣٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٤٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٧٦ المستدرک ج ٤ ص ٣٢٤، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣١١٨، مسند احمد ج ٣ ص ٤٧٣) حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملاقات کے لیے تشریف لائے، آپ نے دیکھا ایک شخص بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود تھے۔ آپ نے فرمایا : کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ اپنے باوتوں کو درست کرلے اور ایک شخص کو میلے کچیلے کپڑے پہنے دیکھا، آپ نے فرمایا : کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھو لے ! (سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٢٣٦، سنن ابو دائود رقم الحدیث ٢٠٦٤، مسند احمد ج ٣، ص ٣٥٧، مشکوۃ رقم الحدیث : ٢٣٥١) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ اس بات سے محبت کرتا ہے کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے بندے پر دکھائی دے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٨١٩، مسند احمد ج ٢ ص ٢١٣، المستدرک ج ٤ ص ١٣٥، مشکوۃ رقم الحدیث : ٤٥٠) خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے، کھانے پینے، لباس، مکان اور دیگر سامان آرائش اور زینت کو حسب حیثیت استعمال کرنا چاہیے، بےجا خرچ سے بچنا چاہیے، اور اپنے مال میں نا داروں کے حق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور آرام اور آسائش کے دنوں میں اللہ کی یاد اور اس کی عبادت سے غافل نہیں ہونا چاہیے، اور ہر وقت ذکر و فکر اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 59