أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا تَكُوۡنُ فِىۡ شَاۡنٍ وَّمَا تَتۡلُوۡا مِنۡهُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّلَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيۡكُمۡ شُهُوۡدًا اِذۡ تُفِيۡضُوۡنَ فِيۡهِ‌ؕ وَمَا يَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّكَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ وَلَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ وَلَاۤ اَكۡبَرَ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞

ترجمہ:

(اے رسول اکرم ! ) آپ جس حال میں بھی ہوتے ہیں اور آپ اللہ کی طرف جو کچھ بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور (اے مسلمانو ! ) تم جو کام بھی کرتے ہو تو ہم (اس وقت) تم سب پر گواہ ہوتے ہیں جس وقت تم ان کاموں میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے ایک ذرہ کی مقدار بھی پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس ذرہ سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی چیز مگر وہ روشن کتاب میں درج ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے رسول اکرم ! ) آپ جس حال میں بھی ہوتے ہیں اور آپ اللہ کی طرف جو کچھ بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور (اے مسلمانو ! ) تم جو کام بھی کرتے ہو تو ہم (اس وقت) تم سب پر گواہ ہوتے ہیں جس وقت تم ان کاموں میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے ایک ذرہ کی مقدار بھی پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس ذرہ سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی چیز مگر وہ روشن کتاب میں درج ہے (یونس : ٦١) 

مشکل الفاظ کے معانی اور آیات سابقہ سے مناسبت :

و ما تکون فی شان : شان کے معنی ہیں کام، حال، کسی امر مہم کو بھی شان کہتے ہیں۔ (النہایہ ج ٢ ص ٣٩٢) اذتفیضون فیہ : جب تم کسی کام میں مشغول ہوتے ہو، کہا جاتا ہے، افضنا فی الحدیث : ہم باتوں میں لگ گئے۔ و ما یعزب : نہیں دور نہیں ہوتا یا نہیں غائب ہوتا۔ من مثقال ذرۃ : چھوٹی چیونٹی کے برابر۔ (تفسیر غرائب القرآن للا مام ابن قتیبہ ص ١٧١، مکتبہ الہلا بیروت، ١٤١١ ھ) اس سے پہلی آیات میں یہ فرمایا تھا کہ ان میں سے اکثر شکر ادا نہیں کرتے، اب اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کے تمام اعمال کو محیط ہے، خواہ وہ چھوٹا کام کریں یا بڑا کام کریں، یا وہ کسی کام کا ارادہ کریں اور اس کام کو نہ کریں، وہ ان کے دلوں کے احوال اور ظاہری افعال سب کو ہرحال میں اور ہر وقت جاننے والا ہے اور کون گناہوں میں ڈوبنے والا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے، خواہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز ہو یا بڑی سے بری چیز ہو وہ سب لوح محفوظ میں مندرج ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لیے نوید ہے اور کفار کے لیے وعید ہے۔ 

زمین کے ذکر کو آسمان کے ذکر پر مقدم کرنے کی وجہ :

اس آیت میں پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطاب فرمایا اور اس کے بعد تمام مکلفین سے خطاب فرمایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق دو چیزوں کا ذکر فرمایا : آپ جس حال میں بھی ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس نے فرمایا : آپ جو بھی نیکی کا کام کرتے ہیں، حسن بصری نے کہا : آپ دنیا کا جو بھی کام کرتے ہیں یا اپنی حوائج اور ضروریات میں سے جس چیز میں، بھی مشغول ہوتے ہیں یا آپ اللہ کی طرف سے قرآن مجید کی جس قدر بھی تلاوت کرتے ہیں، پھر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا : تم لوگ جو کام بھی کرتے ہو ہم اس پر گواہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے اور ہر چیز کا عالم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا خالق ہے اور جو چیز بھی موجود ہے وہ اس کی ایجاد سے موجود ہے اور جو کسی چیز کا موجد ہوتا ہے وہ اس چیز کا عالم بھی ہوتا ہے، پس جب وہ تمام جہانوں کا موجد ہے تو پھر تمام جہانوں کا عالم بھی ہے۔ اس کے بعد فرمایا : اور آپ کے رب سے ایک ذرہ کی مقدار بھی پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس ذرہ سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی چیز مگر وہ اس روشن کتاب میں درج ہے۔ اس آیت میں زمین کو آسمان پر مقدم کیا ہے اور اس مضمون کی ایک اور آیت میں آسمانوں کو زمینوں پر مقدم فرمایا ہے، ارشاد ہے : عالم الغیب لا یعزب عنہ مثقال ذر ۃٍ فی السموت ولا فی الارض ولا اصغر من ذلک ولآ اکبر الا فی کتابٍ مبینٍ (سبا : ٣) عالم الغیب کی قسم ! اس سے ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز غائب نہیں ہے نہ آسمانوں میں نہ زمینوں میں اور نہ اس ذرہ سے کوئی چھوٹی چیز ہے نہ بڑی چیز مگر وہ روشن کتاب میں درج ہے۔ قرآن مجید میں بالعموم آسمانوں کا ذکر زمین پر مقدم ہی ہوتا ہے، لیکن اس آیت میں چونکہ پہلے زمین والوں کے احوال اور ان کے اعمال کا ذکر کیا گیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان سب کے اعمال پر گواہ ہے اس لیے اس آیت میں زمین کے ذکر کو آسمان کے ذکر پر مقدم فرمایا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 61