وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اِنۡ كَانَ كَبُرَ عَلَيۡكُمۡ مَّقَامِىۡ وَتَذۡكِيۡرِىۡ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَكُمۡ وَشُرَكَآءَكُمۡ ثُمَّ لَا يَكُنۡ اَمۡرُكُمۡ عَلَيۡكُمۡ غُمَّةً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَىَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ ۞- سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 71
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اِنۡ كَانَ كَبُرَ عَلَيۡكُمۡ مَّقَامِىۡ وَتَذۡكِيۡرِىۡ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَكُمۡ وَشُرَكَآءَكُمۡ ثُمَّ لَا يَكُنۡ اَمۡرُكُمۡ عَلَيۡكُمۡ غُمَّةً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَىَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ ۞
ترجمہ:
اور ان کے سامنے نوح کا قصہ بیان کیجیے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! اگر تم کو میرا (تمہارے درمیان) رہنا اور تمہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا ناگوار ہے تو میں نے تو صرف اللہ پر توکل کیا ہے تم اپنے (خودساختہ) معبودوں کے ساتھ مل کر اپنی سازش کوc کرلو، پھر تمہاری وہ سازش (تمہارے گروہ پر) مخفی نہ رہے پھر تم جو کچھ میرے خلاف کرسکتے ہو وہ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو
تفسیر:
حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان کے سامنے نوح کا قصہ بیان کیجیے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! اگر مت کو میرا (تمہارے درمیان) رہنا اور تمہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا ناگوار ہے تو میں نے تو صرف اللہ پر توکل کیا ہے، تم اپنے (خودساختہ) معبودوں کے ساتھ مل کر اپنی سازش کو پختہ کرلو، پھر تمہاری وہ سازش (تمہارے گروہ پر) مخفی نہ رہے پھر تم جو کچھ میرے خلاف کرسکتے ہو وہ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو پھر اگر تم اعراض کرو تو میں نے (تبلیغ دین کا) تم سے کوئی اجر طلب نہیں کیا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں (یونس : ٧٢۔ ٧١)
ربط آیات اور انبیاء سابقین کے قصص بیان کرنے کی حکمتیں :
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے شبہات کا ازالہ فرمایا تھا اور توحید اور رسالت پر دلائل قائم فرمائے تھے اب اللہ تعالیٰ نے دوسرا عنوان شروع فرمایا اور انبیاء (علیہم السلام) کے قصص کا بیان شروع فرمای اور خطاب کی ایک نوع سے دوسری نوع کی طرف منتقل ہونے میں حسب ذیل فوائد ہیں :
(١) جب خطاب کی ایک نوع میں کلام طویل ہوجائے تو بعض اوقات مخاطب کو اس سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور اس پر غفلت یا اونگھ طاری ہونے لگتی ہے اور جب خطاب کا انداز بدل جائے اور کلام کی دوسری قسم سے تقریر شروع کردی جائے تو اس کا اونگھتا ہوا ذہن بیدار ہوجاتا ہے اور اس کو اس نئے موضوع سے دلچسپی ہونے لگتی ہے اور اس کا ذوق و شوق تازہ ہوجاتا ہے۔
(٢) اللہ تعالیٰ نے انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے قصص بیان فرمائے تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کے لیے انبیاء (علیہم السلام) میں نمونہ ہو کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سنیں گے کہ تمام کافر تمام رسولوں کے ساتھ اسی طرح انکار اور مخالفت کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں اور واضح دلائل اور معجزات دیکھنے کے باوجود ان کو جھٹلاتے رہے ہیں تو کفار مکہ کی مخالفت اور ان کی شقاوت کو برداشت کرنا آپ پر سہل اور آسان ہوجائے گا۔
(٣) کفار جب انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے ان واقعات کو سنیں گے تو ان کو یہ علم ہوگا کہ انبیاء متقدمین کو ان کے زمانہ کے کافروں نے ایذاء پہنچانے میں اپنی انتہائی طاقت صرف کردی لیکن بالآخر وہ ناکام اور نامراد ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی مدد فرمائی اور کافر ذلیل اور رسوا ہوئے تو ہوسکتا ہے کہ ان واقعات کو سن کر کفار کے دل خوف زدہ ہوں اور وہ اپنی ایذاء رسانیوں سے باز آجائیں۔
(٤) ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی تھے۔ آپ نے کسی معلم سے پڑھا تھا نہ کسی عالم کی صحبت میں بیٹھے تھے پھر آپ نے انبیاء سابقین کے یہ واقعات اسی طرح بیان فرمائے جس طرح تورات، زبور اور انجیل میں لکھے ہوئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے ان قصص کو اللہ تعالیٰ کی وحی سے جانا تھا اور یہ آپ کی نبوت کی صداقت اور قرآن مجید کی حقانیت کی واضح دلیل ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ کو مقدم کرنے کی وجہ :
اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں تین قصص بیان فرمائے ہیں : پہلے حضرت نوح کا قصہ بیان فرمایا پھر حضرت موسیٰ کا اور اس کے بعد حضرت یونس کا قصہ بیان فرمایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ کو مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ اور حضرت یونس (علیہما السلام) پر مقدم ہیں، نیز اس لیے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جب کفر اور انکار پر اصرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو طوفان میں غرق کردیا، سو اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ بیان فرمایا تاکہ اس کو سن کر کفار مکہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائیں اور حضرت نوح کی قوم کے عذاب سے عبرت حاصل کریں نیز اس لیے کہ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہمارے انکار پر کوئی آسمانی عذاب لائیں اور کہتے تھے کہ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا تو ان کو بتایا کہ حضرت نوح کی قوم بھی ایسا ہی کہتی تھی پھر بالآخر ان پر طوفان سے غرقابی کا عذاب آگیا۔
حضرت نوح (علیہ السلام) سے ان کی قوم کی ناگواری کی وجوہ :
اس آیت میں فرمایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو یہ ناگوار تھا کہ حضرت نوح ان کے درمیان رہیں، ان کی ناگواری کی وجہ یہ تھی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک ان کے درمیان رہے اور ان کے پاس اتنے لمبے قیام کی وجہ سے وہ بیزار ہوگئے تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ بت پرستی کے جس طریقہ پر کاربند تھے وہ طریقہ ان کو بہت مرغوب اور بہت محبوب تھا، وہ اس سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) ان سے یہ فرماتے تھے کہ وہ اس طریقہ کو ترک کردیں اور یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی انسان کو اس کے پسندیدہ طریقہ سے ہٹانے کی کوشش کریں تو اس کو برا لگتا ہے، تیسری وجہ یہ ہے کہ انسان دنیاوی لذات سے محبت کرتا ہے، فحش کاموں میں اس کو مزہ آتا ہے اور ان کو چھوڑنا اس پر دشوار ہوتا ہے اور عبادت کی مشقتوں سے وہ متنفر ہوتا ہے، ایسے شخص کو وہ آدمی برا لگتا ہے جو اس کو برے کاموں سے منع کرے اور نیک کام کرنے کا حکم دے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کو تبلیغ دین میں کفار کا کوئی خوف تھا نہ ان سے کسی نفع کی توقع تھی :
حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ ان کی قوم کو ان کا قیام اور ان کا نصیحت کرنا ناگوار ہے تو انہوں نے ابتداء سے یہ فرمایا : فعلی اللہ توکلت ” میں نے صرف اللہ پر توکل کیا ہے “ کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر کامل بھروسہ ہے کیونکہ وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور تم اس وہم میں نہ رہنا کہ تم جو مجھے قتل کرنے اور ایذاء پہنچانے کی دھمکیاں دیتے ہو تو میں اس سے ڈر کر اپنے مشن کو ترک کر دوں گا اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دینے کو چھوڑ دوں گا پھر دوسری بار تاکید کی : فاجمعوا امرکم گویا کہ یہ فرمایا کہ تم میری مخالفت میں اور مجھے ایذا پہنچانے کے لیے جس قدر اسباب جمع کرسکتے ہو وہ جمع کرلو اور نہ صرف تم بلکہ تم اپنے ساتھ اپنے مزعوم خدائوں کو بھی ملا لو پھر تیسری بار فرمایا : پھر وہ تمہاری سازش (تمہارے گروہ پر) مخفی نہ رہے یعنی تم نے میرے خلاف جو کچھ کرنا ہے وہ کھلم کھلا کرو، پھر چوتھی بار فرمایا : ثم اقضوا الی ” پھر تم جو کچھ میرے خلاف کرسکتے ہو وہ کر گزرو “ یعنی تم جو کچھ مجھے ضرر پہنچانا چاہتے ہو اور میرے خلاف جو بھی شر اور فساد کرنا چاہتے ہو وہ کر گزرو اور پانچویں بار فرمایا : اور مجھے مہلت نہ دو یعنی تم جس قدر جلد میرے خلاف کارروائی کرسکتے ہو وہ کرو اس سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کفار کی دھمکیاں سے بالکل نہیں ڈرتے تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ پر کامل توکل تھا۔ اس کے بعد فرمایا : پھر اگر تم اعراض کرو تو میں نے (تبلیغ دین کا) تم سے کوئی اجر طلب نہیں کیا۔ اس قول میں بھی اس پر دلیل دی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کفار سے بالکل ڈر نہ تھا کیونکہ خوف یا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دشمن کی طرف سے کوئی شر پہنچے گا تو حضرت نوح کے پہلے ارشادات سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کفار کے شر اور فساد کی کوئی پرواہ نہیں تھی یا خوف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ متوقع منافع اور فوائد منقطع ہوجائیں گے تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، آپ نے ان سے کوئی چیز نہیں لی تھی کہ ان کی ناگواری کی بناء پر اس کے چھن جانے کا خوف ہوتا۔ اس کے بعد فرمایا : میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم دین اسلام قبول کرو یا نہ کرو مجھے دین اسلام پر برقرار رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ دین اسلام کی دعوت دینے کی وجہ سے مجھے خواہ کوئی ضرر پہنچے مجھے ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری پر برقرار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 71