وَقَالَ مُوۡسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَيۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَمَلَاَهٗ زِيۡنَةً وَّاَمۡوَالًا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ رَبَّنَا لِيُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِكَۚ رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰٓى اَمۡوَالِهِمۡ وَاشۡدُدۡ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَلَا يُؤۡمِنُوۡا حَتّٰى يَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَ لِيۡمَ ۞- سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 88
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ مُوۡسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَيۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَمَلَاَهٗ زِيۡنَةً وَّاَمۡوَالًا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ رَبَّنَا لِيُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِكَۚ رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰٓى اَمۡوَالِهِمۡ وَاشۡدُدۡ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَلَا يُؤۡمِنُوۡا حَتّٰى يَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَ لِيۡمَ ۞
ترجمہ:
اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب ! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں زینت کا سامان اور مال دیا ہے، اے ہمارے رب ! تاکہ وہ انجام کار لوگوں کو تیرے راستہ سے بھٹکا دیں، اے ہمارے رب ! ان کے مال و دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ وہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب ! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں زینت کا سامان اور مال دیا ہے، اے ہمارے رب ! تاکہ وہ انجام کار لوگوں کو تیرے راستہ سے بھٹکا دیں، اے ہمارے رب ! ان کے مال و دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ وہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے، تم دونوں ثابت قدم رہنا اور جاہلوں کے راستہ کی ہرگز پیروی نہ کرنا (یونس : ٨٩۔ ٨٨)
فرعون کے خلاف حضرت موسیٰ کی دعا ضرر کی توجیہ :
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے بڑے معجزات کو ظاہر کرنے میں بہت مبالغہ کیا اور اس کے باوجود یہ دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم نے کفر پر اصرار کیا اور ایمان لانے سے انکار کیا تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے خلاف دعا کی اور اس کے ساتھ ان کے وہ جرائم بھی بیان کیے جن کی وجہ سے ان کے خلاف دعا کی تھی اور ان کے جرائم یہ تھے کہ انہوں نے دنیا کی محبت کی وجہ سے دین کو ترک کردیا، اس وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا میں یہ ذکر کیا ” تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں زینت کا سامان اور مال دیا ہے “ اور یہاں زینت سے مراد ہے ان کی صحت اور ان کا حسن و جمال، عمدہ لباس، بکثرت سواریاں، گھر کا سازوسامان اور سونے اور چاندی کا ڈھیروں مال۔
اللہ کے راستہ سے گمراہ کرنے کی دعا کی توجیہات :
اس دعا میں فرمایا : اے ہمارے رب ! تاکہ وہ لوگوں کو تیرے راستہ سے بھٹکا دیں اور فرمایا : اور ان کے دلوں کو سخت کر دے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دولت اس لیے عطا کی تھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے گمراہ کردیں اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کو اس لیے مبعوث فرماتا ہے کہ وہ بندوں کو گمراہ کریں اور اس مفروضہ سے تو دین اور شریعت کا مقصود فوت ہوجائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لیضلوا میں لام ” کے “ نہیں ہے جس کا معنی ہے تاکہ وہ گمراہ کریں بلکہ یہ لام عاقبت ہے اور اس کا معنی ہے انجام کار وہ گمراہ کردیں یا نتیجتاً وہ گمراہ کردیں۔ قرآن مجید میں اس کی مثال یہ ہے : فالتقطہ ال فرعون لیکون لہم عدوا و حزنا۔ (القصص : ٨) تو فرعون کے گھر والوں نے موسیٰ کو اٹھا لیا تاکہ انجام کار وہ ان کے دشمن اور ان کے لیے غم کا باعث ہوجائیں۔ اسی طرح جب کہ قوم فرعون کا انجام گمراہ ہونا تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اس کی خبر دے دی تھی اس لیے انہوں نے دعا میں کہا کہ تو نے ان کو دنیا کی زندگی میں زینت کا سامان اور مال دیا ہے تاکہ انجام کار یہ لوگوں کو تیرے راستہ سے گمراہ کردیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں ” لا “ محذوف ہے، اصل عبارت یوں ہے : ربنا لئلا یضلوا عن سبیلک ” اے ہمارے رب تاکہ یہ تیرے راستہ سے گمراہ نہ کرسکیں “ اس کی مثال قرآن مجید میں یہ ہے : یبین اللہ لکم ان تضلوا۔ (النساء : ١٧٦) اللہ تمہارے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ ہو جائو۔ یہاں بھی عبارت میں لا محذوف ہے اور مراد ہے لاتضلوا تاکہ تم گمراہ نہ ہو جائو، اس کی ایک اور مثال یہ ہے : قالوا بلی شہدنا ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ہذا غفلین۔ (الاعراف : ١٧٢) سب نے کہا کیوں نہیں ! (یقینا تو ہمارا رب ہے) ہم نے گواہی دی (یہ اس لیے کہ) قیامت کے دن تم کہنے لگو ہم تو اس سے بیخبر تھے۔ اصل میں لئلا تقولوا تھا ” تاکہ قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بیخبر تھے۔ “ اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ یہاں ہمزہ استفہام محذوف ہے اور لام، لام ” کے “ ہے اور اس کا معنی یوں ہے : کیا تو نے ان کو دنیا کی زندگی میں زینت کا سامان اور مال اس لیے دیا تھا کہ یہ لوگوں کو گمراہ کردیں !
دعا کی قبولیت میں جلدی کی امید رکھنا جہالت ہے :
حضرت موسیٰ نے اپنی دعا میں کہا : ” ربنا اطمس علی اموالہم “ طمس کا معنی ہے مسخ کرنا۔ ضحاک نے بیان کیا ہے کہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ان کے دراہم اور دنانیر منقوش پتھر بن گئے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٧٩٦) اور انہوں نے اپنی دعا میں کہا : ” اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ وہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں “ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ وہ ایمان نہ لاسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے۔ “ اس کے دو محمل ہیں : ایک یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے اور جو شخص کسی کی دعا پر آمین کہے وہ بھی دعا کرنے والا ہے اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ دونوں نے دعا کی ہو۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٨١٢) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم دونوں ثابت قدم رہنا یعنی رسالت پر اور تبلیغ دین پر اور دلائل قائم کرنے پر ثابت قدم رہنا، ابن جریج نے کہا اس دعا کے بعد فرعون چالیس سال زندہ رہا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٨١٤) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” تم دونوں جاہلوں کے طریقہ کی ہرگز پیروی نہ کرنا۔ “ جاہل لوگ جب دعا کرتے ہیں تو یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی دعا فوراً قبول ہوجائے گی، حالانکہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات دعا کو فوراً قبول فرما لیتا ہے اور بعض اوقات اس کی دعا کا جو وقت مقدر ہوتا ہے اس وقت اس دعا کو قبول فرماتا ہے اور مقبو لیت میں جلدی صرف جاہل لوگ کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا تھا : فلا تسئلن ما لیس لک بہ علم انی اعظکان تکون من الجہلین (ھود : ٤٦) اے نوح ! آپ مجھ سے وہ چیز نہ مانگیں جس کا آپ کو علم نہیں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ جاہلوں میں سے نہ ہوجائیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 88