آزمائش ۔۔۔

تحریر : محمد اسمٰعیل بدایونی

شہر کی گلیوں میں سناٹا ہوئے دو دن ہو چکے تھے ۔۔۔بلوائیوں نے جگہ جگہ آگ لگائی ہو ئی تھی مسلمان سہم چکے تھے ۔۔۔دو دن سے مسجد میں اذان بھی نہیں ہو سکی تھی ۔۔۔بستی میں خوف و ہراس کا عالم تھا ۔۔۔

دو دن کے بعد آج قدرے سکون محسوس ہوا تھا کہ بستی میں کہیں سے دھواں نہیں اٹھا تھا شایدبلوائی جا چکے ہیں۔

عبد اللہ دو دن سے بے قرار تھا دو دن سے مسجد میں اذان ہوئی تھی نہ نماز ادا ہو ئی تھی۔آج وہ چھپتے چھپاتے مسجد تک آیا تھا خالی مسجد دیکھ کر وہ بے قرار ہو گیا تھا والہانہ انداز میں وہ مسجد کے درو دیوار کو چوم رہا تھا ۔

کچھ دیر بعد اس کے دو ساتھیوں میں سے ایک نے اقامت کہی اور امام صاحب نے ابھی اللہ اکبر کہا ہی تھا کہ بلوائیوں نے مسجد پر حملہ کر دیا ۔

۔۔۔۔۔

عبد اللہ کہاں ہے ؟ امی نے پوچھا۔

وہ تو نماز پڑھنے مسجد گیا ہے اللہ خیر کرے ان بلوائیوں سے ہمارے محلے کی حفاظت فرمائے ۔۔

امی بار بار دروازے کی جانب جاتیں اور واپس آتیں ،فاطمہ نہ جانے کیوں میرا دل ہو ل رہاہے۔۔۔امی نے اپنی بڑی بیٹی فاطمہ سے کہا ۔

کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی تو امی دوڑتی ہوئی دروازے پرگئیں دروازے پر عبد اللہ زخمی حالت میں موجود تھا ۔۔۔

ارے عبد اللہ ! عبد اللہ ارے دیکھو میرے عبد اللہ کو کیا ہوا ؟ امی نے روتے روتے کہا۔

پا۔۔پا۔۔پان ۔پانی عبد اللہ کا سانس برے طریقے سے پھولا ہوا تھا ۔

پانی لا ؤ کوئی جلدی پانی لاؤ ۔۔۔امی نے کہا تو فا طمہ فوراً ہی پانی کا گلاس لے کر پہنچی ۔

عبد اللہ نے بسم اللہ پڑھ کر پانی پیا ۔۔۔۔کیا ہوا ؟ کہاں چوٹ آ ئی؟

کہیں چوٹ نہیں آئی بس ہلکی پھلکی خراش آئی ہے ۔۔۔عبد اللہ نے سانس بحال کرتے ہوئے کہا ۔

تو یہ خون کیسا لگا ہوا ہے امی نے عبد اللہ کے کپڑوں پر خون کے نشانات دیکھتے ہوئے کہا۔

دو دن ہو گئے تھے مسجد بند تھی اذان بھی نہیں ہو رہی تھی ہم تین دوست مسجد پہنچے اور جماعت شروع کی تو بلوائیوں نے حملہ کر دیا مسجد کے امام صاحب تو شدید زخمی ہیں یہ انہی کے خون کے نشانات ہیں عبد اللہ نے اپنے کپڑوں پر لگے خون کے نشانات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ۔

اللہ تعالیٰ امام صاحب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے ۔۔۔آمین امی نے کہا ۔

امی ایک بات بتائیے ۔

ہاں میرے لعل پوچھو !

امی یہ ظلم ہمارے ساتھ کیوں ؟ ہم لاالہ الااللہ محمد رسو ل اللہ پڑھتے ہیں اس لیے ۔۔۔

امی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔

ساری دنیا کا دجالی میڈیا ہم مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ رہاہے جب کہ سب سے زیادہ ظلم بھی ہم مسلمانوں پر ہو رہاہے ۔امی ایسا کیوں ہے ؟

بیٹا ! صبر کرو ! ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔۔۔مسلمان کے لیے سب سے قیمتی اس کا ایمان ہے ۔ امی نے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو صاف کیا۔

بیٹا ! دنیا کے ممالک جب آرمی میں بھرتی کرتے ہیں تو وہ ایک انٹر ویو لیتے ہیں اس جاب کے لیے آنے والے کی جسامت دیکھتے ہیں ۔۔۔اس کی قابلیت دیکھتے ہیں اس کو دوڑا کر دیکھتے ہیں ۔۔۔وہ فٹ ہے یا نہیں ۔

اگر وہ فٹ ہو تا ہے تو اس کو فوج میں رکھتے ہیں ورنہ نہیں رکھتے ۔۔۔

کسی فرم میں کمپیوٹر انجنئیر کی جاب آجائے تو اس کا ٹیسٹ لے کر دیکھتے ہیں آیا یہ اس قابل ہے یا نہیں ؟

اگر وہ ان کی آزمائش پر پورا اترتا ہے تو اسے جاب دیتے ہیں ورنہ اسے منع کر دیتے ہیں ۔

ہر جگہ آزمائش شرط ہے تھوڑی سی تنخواہ کے لیے آزمائش ۔۔۔ جتنی اچھی نوکری ، جتنی اچھی فرم اتنی سخت آزمائش تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو آزمائے گا نا !!؟بہت بڑی جنت ہے ایسے تو نہیں ملے گی نا !

پھر رسول اللہ ﷺ کا غلام ہو نا کوئی معمولی بات تو ہے نہیں ان کے جا نثار کا امتحان بھی ہو گا ۔۔۔بس اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے کبھی وہ بھوک سے آزماتا ہے ۔۔۔کبھی ڈر سے کبھی مال کی کمی سے لیکن کامیاب کون ہوتے ہیں جو صبر کرتے ہیں ۔دیکھو اللہ تعالیٰ کیا ارشاد فرما رہاہے ۔

وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵ بقرۃ)

اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو

الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)

کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا

اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ -وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(۱۵۷)

یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی دُرودیں ہیں اوررحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں

ایک اور جگہ فرمایا :

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)

کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دئیے جائیں گےکہ کہیں ہم ایمان لائے اور اُن کی آزمائش نہ ہوگی

عنکبوت 2

تمہیں ایک صحابی کا قصہ سُناتی ہوں ۔۔۔ صحابہ کرام تو آسمان ِ ہدایت کے ستارے ہیں ۔۔۔ان کی پیروی میں نجات ہے۔

کیا قصہ ہے امی ! عبد اللہ نے پوچھا ۔

یہ قصہ ہے ایک دس سال کے بچے کا ۔۔۔ روم کی فوج نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا اور اسے قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے کچھ عرصے کے بعد انہوں نے اس بچے کو فروخت کر دیا وہ بچہ مکے پہنچ گیا مکے میں ایک شخص نے انہیں خریدا اور آزاد کر دیا ۔

اس بچے کانام کیا تھا امی ! عبد اللہ نے سوال کیا ۔

اس بچے کا نام صہیب تھا ۔

یہ کیا کرتے تھے ؟فاطمہ نے پوچھا ۔

یہ تجارت کیا کرتے تھے انہوں نے مکے میں کاروبار شروع کیا اور جلد ہی ان کا شمار مکے مالدار تاجروں میں ہو نے لگا ۔

جب اللہ کے نبی ﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا تو یہ بھی آپ ﷺ پر ایمان لے آئے ۔

اللہ کے نبی ﷺ نے مدینے کی جانب ہجرت فرمائی تو یہ بہت بے چین ہو ئے ہر مسلمان کو اللہ کے نبی ﷺ سے بہت محبت ہوتی ہے ہم جیسے لوگ جنہوں نے آقاﷺ کی زیارت نہیں کی 1400 سال گزرنے کے بعد بھی ہر چیز سے زیادہ اپنے نبی ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے تو آپ ﷺ کی زیارت کی تھی آپ کی صحبت میں رہے تھے تو بہت بے قرار رہنے لگے ۔

امی ! پھر حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کیا کیا ؟ عبد اللہ نے پوچھا ۔

انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ یہ بھی مدینے کی جانب ہجرت کر جائیں ۔۔۔

تو یہ بھی ہجرت کرکے چلے گئے ؟فاطمہ نے پوچھا ۔

ہاں انہوں نے بھی ہجرت کا ارادہ کر لیا اپنی ساری دولت لے کر مدینے جانے لگے کہ مکے کے اوباش بلوائیوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے۔

“اے صہیب جب تم یہاں آئے تھے تو تم مفلس اور قلاش تھے اور ایک حقیر انسان تھے یہاں رہ کر تم نے بے شمار دولت کمائی ہے اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کیاہے اب تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو بخدا ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔”

پھر کیا ہوا ؟ عبد اللہ نے پوچھا۔

حضرت صہیب نے جواب دیا: اچھا اگر میں اپنا سارا مال تمہیں دے دوں توکیا پھر تم مجھے جانے دو گے ؟

ان بلوائیوں نے کہا : ہاں پھر ہم تمہیں جانے دیں گے ۔

وہ یہ مال ان بلوائیوں کو دے کر مدینے کی جانب روانہ ہو گئے ۔

جب اللہ کے نبی ﷺ کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا :

“بڑا نفع کمایا صہیب نے بڑا نفع کمایا صہیب نے “

اسی وقت جبریل امین یہ آیت لے کر حاضر ہو ئے

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(۲۰۷)

اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تو بچو! اسلام کی پوری تاریخ قربانیوں کی تاریخ ہے ۔ایمان بہت قیمتی ہے آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر زندہ رکھے اور ایمان پر موت عطا فرمائے ۔