قُلۡ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّنۡ دِيۡنِىۡ فَلَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ اَعۡبُدُ اللّٰهَ الَّذِىۡ يَتَوَفّٰٮكُمۡ ۖۚ وَاُمِرۡتُ اَنۡ اَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 104
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلۡ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّنۡ دِيۡنِىۡ فَلَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ اَعۡبُدُ اللّٰهَ الَّذِىۡ يَتَوَفّٰٮكُمۡ ۖۚ وَاُمِرۡتُ اَنۡ اَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
آپ کہیے اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو لیکن میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنوں میں سے رہوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو لیکن میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنوں میں سے رہوں اور آپ اپنا چہرہ دین کے لیے قائم رکھیں باطل سے منہ موڑتے ہوئے اور مشرکین میں سے ہرگز نہ جائیں اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں جو آپ کو نہ نفع پہنچا سکے نہ نقصان پہنچا سکے اگر (بالفرض) آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ (یونس : ١٠٦۔ ١٠٤)
اسلام کا فطرت کے مطابق ہونا اور کفر کا خلاف فطرت ہونا
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی صحت پر دلائل قائم کیے تھے اور اپنی وحدانیت پر براہین قائم کیے تھے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا صدق بیان فرمایا تھا اور اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے دین کا اظہار کریں اور یہ اعلان کریں کہ وہ مشرکین سے الگ اور علیحدہ ہیں کیونکہ وہ پتھروں سے تراشے ہوئے ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی قسم کا نقصان اور نفع پہنچانے پر قادر نہیں ہیں اور دراصل نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر وہی ذات ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور میں اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ اہل مکہ سے بیان فرمائیں کہ اگر تم میرے دین کو نہیں پہچانتے تو میں تم کو تفیل سے بیان کرتا ہوں کہ میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو کیونکہ تم پتھروں کے جن تراشیدہ بتوں کی عبادت کرتے ہو وہ کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں بلکہ میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرتا ہوں جو تم پر موت طاری کرے گا جس طرح اس نے تم کو زندگی دی ہے اور اس موت کے بعد پھر تم کو زندہ کرے گا اور اس میں یہ تعریض ہے کہ دین برحق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی صاحب عقل شک نہ کرسکے اور جس کی فطرت سلیم ہو وہ اس کی تحسین کرے اور مشرکین ان بتوں کی پرستش کرتے تھے جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا سو جو بت اپنے وجود میں خود مشرکین کے محتاج تھے وہ ان کے خالق اور معبود کیسے ہوسکتے ہیں اور ان کی مشکلات کو کس طرح دور کرسکتے ہیں یہ ایسا دین ہے جس کا ہر صاحب عقل انکار کرے گا۔ اس آیت میں پہلے غیر اللہ کی عبادت کی نفی کی پھر اللہ کی عبادت کا اثبات کیا کیونکہ پہلے برائی کو دور کیا جاتا ہے پھر اچھائی سے آراستہ کیا جاتا ہے اس کے بعد ایمان اور معرفت کا ذکر فرمایا جو تمام اعمال صالحہ کی اساس ہے۔
ریاکاری کا شرک خفی ہونا
اس کے بعد فرمایا : آپ اپنا چہرہ دین کے لیے قائم رکھیں باطل سے منہ موڑتے ہوئے یعنی مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کے معاملہ میں مستقیم رہوں جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان پر عمل کروں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے مجتنب رہوں اور اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ عبادت کرنے میں اور دعا کرنے میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا واجب ہے اور جو شخص اپنی عبادت میں یا اپنی دعا میں غیر اللہ کی طرف متوجہ ہوا اس نے مشرکوں کا سا کام کیا۔ اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور مشرکین میں سے ہرگز نہ ہوجائیں اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس سے ہلی آیت میں فرمایا تھا : تو میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو اس آیت میں بھی شرک کی نفی کی گئی ہے اور دوسری آیت میں جب فرمایا : اور مشرکین میں سے نہ ہوجائیں تو اس میں بھی شرک کی نفی ہے اور یہ تکرار ہے اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں شرک جلی کی نفی مراد ہے اور دوسری آیت میں شرک خفی کی نفی مراد ہے اور شرک خفی سے مراد ریاکاری ہے یعنی کسی کو دکھانے یا سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شرک سے منع کرنے میں امت کی طرف تعریض ہے اس کے بعد فرمایا : اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں جو آپ کو نہ نفع پہنچا سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے کیونکہ ظلم کہتے ہیں کسی چیز کو اس کے مقام اور محل کے غیر میں رکھنا، عبادت کا محل یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کی جائے پس جس شخص نے اللہ کے غیر کی عبادت کی اس نے عبادت کو غیر محل میں رکھا سو یہی ظلم ہے۔ ان تینوں آیتوں میں تعریض ہے ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا گیا ہے اور مراد آپ کی امت ہے پہلی آیت میں فرمایا ہے : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنوں سے رہوں، آپ پیدائشی اور دائمی مومن ہیں اس میں امت کو بتایا ہے کہ جب ہمارے نبی پر یہ حکم ہے تو تم پر بھی یہی حکم ہے دوسری آیت میں فرمایا : آپ مشرکین میں سے ہرگز نہ ہوجائیں ظاہر ہے کہ آپ معصوم ہیں آپ کا مشرک ہونا کیسے متصور ہوسکتا ہے سو اس حکم سے بھی آپ کی امت مراد ہے اور تیسری آیت میں فرمایا : اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے اور اس میں تعریض بالکل ظاہر ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 104