أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُولٰٓئِكَ لَمۡ يَكُوۡنُوۡا مُعۡجِزِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ وَمَا كَانَ لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ‌ ۘ يُضٰعَفُ لَهُمُ الۡعَذَابُ‌ ؕ مَا كَانُوۡا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ السَّمۡعَ وَمَا كَانُوۡا يُبۡصِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

یہ لوگ زمین میں (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار تھا ان کے لیے عذاب کو دگنا کیا جائے گا یہ (شدت کفر کی وجہ سے حق کو) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نہ یہ (بغض کی وجہ سے حق کو) دیکھتے تھے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ لوگ زمین میں (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے سوا کوئی ان کا مددگار تھا، ان کے لیے عذاب کو دگنا کیا جائے گا یہ (شدت کفر کی وجہ سے حق کو) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نہ یہ (بغض کی وجہ سے حق کو) دیکھتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور جو کچھ یہ افتراء کرتے تھے وہ ان سے جاتا رہا۔ بلاشبہ یقینا یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (ھود : ٢٢۔ ٢١۔ ٢٠ )

کفار مکہ کی چودہ وجوہ سے مذمت

اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی دو آیتوں میں کفار مکہ کی سات وجوہ سے مذمت فرمائی تھی :

(١) وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان تراشتے تھے اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان تراشے۔

(٢) وہ ذلت اور رسوائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جائیں گے، فرمایا : اور یہ لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

(٣) تمام گواہ ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا، فرمایا : اور تمام گواہ یہ کہیں گے کہ انہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا۔

(٤) وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ملعون ہیں، فرمایا : سنو ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

(٥) وہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، فرمایا : جو اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں۔

(٦) وہ اسلام کے خلاف شکوک اور شبہات ڈالتے ہیں فرمایا : اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں۔

(٧) وہ آخرت کے منکر ہیں، فرمایا : وہ آخرت کا کفر کرنے والے ہیں۔

اور ان آیتوں میں ان کی مزید سات وجوہ سے مذمت فرمائی ہے :

(١) وہ اللہ کے عذاب سے بھاگ نہیں سکتے، فرمایا : یہ لوگ زمین میں (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہ تھے۔

(٢) اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے ان کا کوئی مددگار نہیں، فرمایا : اور نہ ان کے سوا ان کا کوئی مددگار تھا۔

(٣) ان کا عذاب دگنا کیا جائے گا، فرمایا : ان کے لیے عذاب کو دگنا کیا جائے گا۔

(٤) ان میں حق کو سننے کی طاقت ہے نہ دیکھنے کی، فرمایا : یہ (شدت کفر کی وجہ سے حق کو) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نہ یہ (بغض کی وجہ سے حق کو) دیکھتے تھے۔

(٥) انہوں نے اللہ کی عبادت کے بدلہ میں بتوں کی عبادت کو خرید لیا اور یہ ان کے گھاٹے اور خسارے کا سبب ہے، فرمایا : یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا۔

(٦) انہوں نے دین کو دنیا کے بدلہ میں فروخت کردیا اور اس میں ان کو دنیا میں یہ گھاٹا ہوا کہ انہوں نے عزت والی چیز کو دے کر ذلت والی چیز کو لے لیا اور آخرت کا خسارہ یہ ہے کہ وہ ذلت والی چیز بھی ضائع اور ہلاک ہوگئی اور اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا فرمایا : اور جو کچھ یہ افتراء کرتے تھے وہ ان سے جاتا رہا۔

(٧) چونکہ انہوں نے نفیس چیز کو دے کر خسیس چیز کو لیا اس لیے ان کا خسارہ لازمی اور یقینی ہے، فرمایا : بلاشبہ یقینا یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ 

کفار کو دگنا عذاب دینا، ایک برائی پر ایک عذاب کے قاعدہ کے خلاف نہیں ہے

اس آیت میں یہ فرمایا ہے : ان کے لیے عذاب دگنا کیا جائے گا، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلھا وھم لا یظلمون۔ (الانعام : ١٦٠)

اور جو شخص برا کام کرے تو اسے صرف اسی ایک برے کام کی سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اور ان کے لیے عذاب کو دگنا کرنا اس آیت کے خلاف ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جس برائی کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی سزا یعنی دگنا عذاب ہے اور انہوں نے ایک برائی کی تھی تو ان کو اس کی سزا میں اسی ایک برائی کا دگنا عذاب دیا جائے گا، دو برائیوں کا عذاب نہیں دیا جائے گا

جیسا کہ فرمایا ہے : اسے صرف اسی ایک برے کام کی سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا، ظلم تب ہوتا جب ایک برائی کرنے والوں کو دو برے کام کرنے کی سزا دی جاتی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کفر کی سزا جہنم کا دائمی عذاب ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھنے، لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے اور کجی کو تلاش کرنے یعنی دین اسلام کی خوف شکوک و شبہات ڈالنے اور آخرت کا انکار کرنے کی سزا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دگنا عذاب ہے، اس کی نظیریہ آیت ہے :

ینساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین۔ (الاحزاب : ٣٠)

اے نبی کی بیویو ! اگر (بالفرض) تم میں سے کسی نے کھلی بےحیائی کا ارتکاب کیا تو اس کو دگنا عذاب دیا جائے گا۔

یہ آیت بھی سورة الانعام کی آیت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ازواج مطہرات کی، کی ہوئی کھلی بےحیائی کا عذاب عام عورتوں کی بہ نسبت دگنا عذاب ہے اور ایک مرتبہ کی ہوئی کھلی بےحیائی پر ایک مرتبہ ہی دگنا عذاب ہوگا دو مرتبہ دگنا عذاب نہیں ہوگا۔ سورة الانعام کی آیت کے خلاف تب ہوتا جب ایک مرتبہ کھلی ہوئی بےحیائی کے ارتکاب پر دو مرتبہ کھلی ہوئی بےحیائی کے ارتکاب کا عذاب دیا جاتا۔ 

جب کفار حق کو سننے اور دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے تو ان سے گرفت کیوں ہوئی ؟

نیز اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : یہ (حق کو) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نہ (حق کو) دیکھتے تھے،

اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب ان میں حق کو سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہ تھی تو پھر ان کے ایمان نہ لانے اور کفر پر قائم رہنے میں ان کا کیا قصور ہے، اس سوال کے متعدد جوابات ہیں،

پہلا جواب یہ ہے کہ وہ کفر اور عناد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض اور عداوت میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی توحید اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں تو ان پر کراہت اور ناگواری کی ایسی شدید کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ ان دلائل کو سن پاتے ہیں نہ دیکھ پاتے ہیں

اور دوسرا جواب یہ ہے کہ سننے اور دیکھنے سے مقصود ہے حق کو قبول کرنا اور چونکہ وہ حق کو قبول نہیں کرتے تو گویا وہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔

اس کی تیسری توجیہ یہ ہے کہ سننے اور دیکھنے کی ازخود طاقت اور قدرت تو کسی میں نہیں ہے، جب بندہ سننے اور دیکھنے کا قصد کرتا ہے تو اس میں وہ قدرت پیدا کردیتا ہے اور جو ن کہ کفار مکہ حق کو سننے اور دیکھنے کا قصد ہی نہیں کرتے تھے اس لیے ان کے متعلق خصوصیت سے فرمایا : ان میں سنن کی طاقت ہے نہ دیکھنے کی۔

اور اس کی چوتھی توجیہ یہ ہے کہ وہ سماعت اور بصارت سے نفع حاصل نہیں کرتے تھے اور ہدایت یافتہ انسان کی طرح سنتے تھے نہ دیکھتے تھے۔

اس کی پانچویں توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ وہ عناد کی بنا پر اپنے اختیار سے حق کو سنیں گے نہ دیکھیں گے اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں اور ان کی تقدیر میں لکھ دیا کہ وہ حق کو سنیں گے نہ دیکھیں گے اس لیے اب وہ حق کو سننے اور دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

چھٹی توجیہ یہ ہے کہ چونکہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض اور عداوت رکھتے تھے اس لیے وہ آپ کی باتوں کو سن سکتے تھے نہ سمجھ سکتے تھے۔

النحاس نے کہا : کلام عرب میں یہ معروف ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر بہت ناگوار اور بہت گراں ہو تو کہا جاتا ہے وہ اس کی طرف دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، نیز کہا جاتا ہے کہ محب مذمت کرنے والے کی بات نہیں سن سکتا، اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ مذمت کرنے والا محب کی بات نہیں سن سکتا

اور اس کی آٹھویں توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حق سننے اور دیکھنے کی صفت عطا کی تھی۔ انہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے خود حق کی طرف سے اپنے کانوں اور آنکھوں کو بند کرلیا تھا، اس لیے فرمایا : وہ (حق کو) سننے اور دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 20