أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ عِنۡدِىۡ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ وَلَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّىۡ مَلَكٌ وَّلَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِيۡنَ تَزۡدَرِىۡۤ اَعۡيُنُكُمۡ لَنۡ يُّؤۡتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيۡرًا‌ ؕ اَللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ‌ ۖۚ اِنِّىۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں (ازخود) غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر ہیں میں ان کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہرگز ان کو کوئی خیر نہیں عطا فرمائے گا، اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے (اگر بالفرض میں ایسا کہوں) تو بیشک اس صورت میں، میں ظالموں میں سے ہو جائوں گا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں (ازخود) غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر ہیں میں ان کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہرگز ان کو کوئی خیر نہیں عطا فرمائے گا، اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے (اگر بالفرض میں ایسا کہوں) تو بیشک اس صورت میں، میں ظالموں میں سے ہو جائوں گا۔ (ھود : ٣١) 

حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی ذات سے اللہ کے خزانے اور علم غیب کی نفی کرنا اور اس کی توجیہ

دنیا میں فضائل حقیقیہ روحانیہ کا مدار تین چیزوں پر ہے : ان میں سے ایک استغناء مطلق ہے اور دنیا میں عادت جاریہ یہ ہے کہ جو شخص مال کثیر کا مالک ہو اس کو غنی کہا جاتا ہے، اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ میں استغناء مطلق کا دعویٰ نہیں کرتا اور دوسری چیز ہے علم میں کمال اور مکمل علم۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں ازخود غیب کو نہیں جانتا اور تیسری چیز ہے کامل اور مکمل قدرت اور لوگوں کے دلوں میں یہ بات مقرر ہے کہ مخلوقات میں سب سے زیادہ طاقت اور قدرت فرشتوں کو ہوتی ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اور ان تین چیزوں کی نفی کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ان تینوں مراتب سے مجھے وہی کچھ حاصل ہے جو طاقت بشریہ اور قوت انسانیہ کے موافق ہے، رہا کمال مطلق تو میں اس کا دعویٰ نہیں کرتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ کلام بطور تواضع ہے ورنہ بشمول حضرت نوح (علیہ السلام) تمام انبیاء (علیہم السلام) فرشتوں سے افضل ہیں۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : اگر تم میری تکذیب اس وجہ سے کرتے ہو اور میری پیروی اس لیے نہیں کرتے کہ میرے پاس زیادہ مال اور بڑا مرتبہ نہیں ہے تو میں نے کب اس کا دعویٰ کیا ہے اور میں نے کب تم سے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کے خزانے اور اس کا مال میرے پاس ہے حتیٰ کہ تم اس معاملہ میں مجھ سے بحث کرو اور میری نبوت کا انکار کرو، میں نے تو صرف رسالت اور اللہ عزوجل کے پیغام پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ میں نے یہ کہا ہے کہ میں ازخود غیب کو جانتا ہوں حتیٰ کہ تم اس کے مستبعد ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرو اور میں نے جو نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا ہے وہ وحی کے ذریعہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے خبر دینے کی وجہ سے ہے اور ظاہر یہ ہے کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے نبوت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے آپ سے متعدد غیب کی چیزوں کے متعلق سوال کیا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں نے اللہ تعلایٰ کی دلیل کی وجہ سے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے بتلائے بغیر غیب کو نہیں جانتا اور فرمایا : میں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، اس میں کفار کے اس قول کا رد ہے کہ ہم آپ کو اپنے جیسا بشر ہی سمجھتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنی نبوت کو رواج دینے کے لیے یہ نہیں کہا کہ میں فرشتہ ہوں حتیٰ کہ تم یہ کہو آپ تو تمہاری طرح بشر ہیں اور فرشتے نہیں ہیں کیونکہ بشریت نبوت کے منافی نہیں ہے، تم نے ان تین چیزوں کے نہ ہونے کو میری تکذیب کا ذریعہ بنایا ہے، حالانکہ میں نے ان میں سے کسی چیز کا دعویٰ نہیں کیا۔ (روح المعانی ج ١٢ ص ٦٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

اور جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر ہیں ان کے متعلق میں یہ نہیں کہتا کہ تمہارے حقیر سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے ثواب کو کم کر دے گا یا ان کے اجور کو باطل کر دے گا، اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے پس وہ اس کے موافق ان کو جزا دے گا اور اگر بالفرض میں ایسا کہوں تو پھر میں ظالموں میں سے ہو جائوں گا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 31