وَيٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡــئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ مَالًا ؕاِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّهُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّهِمۡ وَلٰـكِنِّىۡۤ اَرٰٮكُمۡ قَوۡمًا تَجۡهَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 29
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡــئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ مَالًا ؕاِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّهُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّهِمۡ وَلٰـكِنِّىۡۤ اَرٰٮكُمۡ قَوۡمًا تَجۡهَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
(نوح نے کہا) اور اے میری قوم ! میں اس (تبلیغ) پر کوئی مال طلب نہیں کرتا، میرا اجر صرف اللہ پر ہے اور میں ایمان والوں کو دھتکارنے والا نہیں ہو، بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (نوح نے کہا) اور اے میری قوم ! میں اس (تبلیغ) پر کوئی مال طلب نہیں کرتا، میرا اجر صرف اللہ پر ہے اور میں ایمان والوں کو دھتکارنے والا نہیں ہو، بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل ہو اور اے میری قوم ! اگر میں ان (مومنوں) کو دھتکار دوں تو اللہ سے مجھے کون بچائے گا ؟ کیا تم غور نہیں کرتے۔ (ھود : ٣٠۔ ٢٩)
تبلیغ دین پر اجر طلب نہ کرنے سے حضرت نوح کا اپنی نبوت پر استدلال
ھود : ٢٩ میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے کافر سرداروں کے دوسرے شبہ کا جواب دیا ہے، ان کا دوسرا شبہ یہ تھا کہ آپ کی پیروی تو ہماری قوم کے پس ماندی لوگ ہی کر رہے ہیں،
حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کی اس شبہ کا کوئی وجوہ سے جواب دیا :
(١) میں اللہ کے پیغام پہنچانے اور دین کی تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں طلب کر رہا نہ کوئی مال و دولت مانگ رہا ہوں حتیٰ کہ یہ فرق کیا جائے کہ میری پیروی کرنے والا فقیر ہے یا غنی، اس مشکل اور کٹھن عبادت پر میرا اجر تو صرف اللہ تعالیٰ پر ہے تو اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری پیروی امیر کرتے ہیں یا غریب۔
(٢) تم میرے ظاہری حالات کو دیکھ کر یہ سمجھ رہے ہو کہ میں غریب آدمی ہوں اور تمہارا گمان یہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کا یہ کام اس لیے شروع کیا ہے کہ میں تم سے مال و دولت حاصل کر کے خوشحال ہوجائوں، سو تمہاری یہ بدگمانی غلط اور فاسد ہے، کیونکہ میں تم سے دین کا پیغام پہنچانے پر کسی اجر اور معاوضہ کا طلب گار نہیں ہوں، میرا اجر تو صرف اللہ رب العالمین پر ہے تو تم اس بدگمانی کی وجہ سے اپنے آپ کو آخرت کی سعادتوں اور کامیابیوں سے محروم نہ کرو اور اپنے اجر آخرت کو ضائع نہ کرو۔
(٣) اور تم نے یہ کہا کہ ہم تمہیں صرف اپنی مثل بشر سمجھتے ہیں اور ہم اپنے اوپر تمہاری کوئی فضیلت نہیں دیکھتے، اللہ تعالیٰ نے مجھے انواع و اقسام کی فضیلتیں عطا کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں دنیا کے حصول کی کوئی کوشش نہیں کرتا، میری تمام کوشش اور جدوجہد کا محور صرف دین کی طلب ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا کو ترک کرنا اور اس سے اعراض کرنا تمام فضائل کی اصل ہے۔
مومنوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنے کی وجوہ
نیز حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں ایمان والوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی قوم کے کافر سردار نادار مومنوں کے ساتھ بیٹھنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔
امام ابن جریر نے ابن جریج سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوح سے کہا کہ اے نوح ! اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ ہم آپ کی پیروی کریں تو آپ اپنی مجلس سے ان فقراء کو نکال دیں، کیونکہ ہم اس پر کبھی راضی نہیں ہوں گے کہ وہ اور ہم کسی معاملہ میں بھی برابر ہوں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٩٨٩)
حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں ان مومنوں کو اپنی مجلس سے نکالنے والا نہیں ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں، نیز وہ یہ کہتے تھے کہ یہ لوگ نفاق سے آپ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : یہ معاملہ اللہ سے ان کی ملاقات ہونے پر کھل جائے گا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کو اپنی مجلس سے نہ نکالنے کی یہ وجہ پیش کی کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اس وقت ان کا رب ان کو وہ انعامات عطا فرمائے گا، جس کا اس نے ان مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے، اب اگر میں نے ان کو اپنی مجلس سے نکال دیا تو وہ اللہ کے سامنے مجھ سے جھگڑا کریں گے، نیز انہوں نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں ان مومنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گا۔ اگر میں نے بالفرض ان کو اپنی مجلس سے نکال دیا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر گرفت فرمائے گا اور اس کے مقابلہ میں میری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا اور یہ وہ تمام اسرار اور رموز ہیں اور مسلمانوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنے کی وجوہات ہیں جن کو میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔
شریعت میں مومن کی تکریم اور کافر کی تذلیل مطلوب ہے
اس کے بعد (ھود : ٣٠) میں فرمایا : اور اے میری قوم ! اگر میں ان (مومنوں) کو دھتکار دوں تو اللہ سے مجھے کون بچائے گا ؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل اور شرع اس بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم اور تکریم ضروری ہے اور کافر اور فاجر کی توہین کرنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون۔ (المنافقون : ٨)
عزت تو اللہ اور رسول اور ایمان والوں کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔ فاذا قہم اللہ الخزی فی الحیوۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اکبر۔ (الزمر : ٢٦) سو اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کا مزہ چکھایا اور یقینا آخرت کا عذاب سب عذابوں سے بڑا ہے۔
لہم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم۔ (البقرہ : ١١٤)
ان (کافروں) کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی مومنوں کی تکریم اور کفار کی تذلیل کا حکم ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے مسلمان شخص کی تکریم کی تو اللہ تعالیٰ اس کی تکریم کرے گا۔ (العجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٦٤٠، مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض ١٤١٦ ھ)
وضین بن عطا بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون کی طرف وحی کی کہ میں تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار نیکوکاروں کو اور ساٹھ ہزار بدکاروں کو ہلاک کرنے والا ہوں۔ حضرت یوشع نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو بدکاروں کو تو ہلاک فرمائے گا، نیکوکاروں کو کیوں ہلاک فرمائے گا ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ بدکاروں کے پاس جاتے تھے، ان کے ساتھ کھاتے اور پیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی وجہ سے ان پر غضب ناک نہیں ہوتے تھے۔ (شعب الایمان ج ٧ ص ٥٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ)
حضرت نوح (علیہ السلام) کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں بالفرض شریعت کے حکم کے برعکس کروں اور کافر اور فاجر کی تکریم کر کے اس کو اپنی مجلس میں مقرب بنائوں اور مومن متقی کی توہین کر کے اس کو اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور اس صورت میں، میں اللہ عزوجل کے عذاب کا مستحق ہوں گا تو پھر بتائو مجھے اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا ؟
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 29