قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَاٰتٰٮنِىۡ مِنۡهُ رَحۡمَةً فَمَنۡ يَّـنۡصُرُنِىۡ مِنَ اللّٰهِ اِنۡ عَصَيۡتُهٗ فَمَا تَزِيۡدُوۡنَنِىۡ غَيۡرَ تَخۡسِيۡرٍ ۞- سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 63
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَاٰتٰٮنِىۡ مِنۡهُ رَحۡمَةً فَمَنۡ يَّـنۡصُرُنِىۡ مِنَ اللّٰهِ اِنۡ عَصَيۡتُهٗ فَمَا تَزِيۡدُوۡنَنِىۡ غَيۡرَ تَخۡسِيۡرٍ ۞
ترجمہ:
(صالح نے کہا) اے میری قوم ! یہ بتائو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت عطا فرمائی ہو، تو اللہ کے مقابلہ میں میری کون مدد کرے گا۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو تم میرے لیے سوا نقصان کے کس چیز میں زیادتی کر رہے ہو۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (صالح نے کہا) اے میری قوم ! یہ بتائو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت عطا فرمائی ہو، تو اللہ کے مقابلہ میں میری کون مدد کرے گا، اگر میں اس کی نافرمانی کروں، تو تم میرے لیے سوا نقصان کے کس چیز میں زیادتی کر رہے ہو۔ (ھود : ٦٣)
اپنی نبوت پر یقین کے باوجود حضرت صالح نے بصورت شک کیوں بات کی ؟
حضرت صالح (علیہ السلام) نے بصورت شک کہا : ” اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں “ حالانکہ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اس پر مکمل یقین تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور شک کی صورت کو اس لیے اختیار کیا تاکہ ان کے مخالفین کے لیے ان کا کلام قبول ہونے کے زیادہ قریب ہو گویا کہ انہوں نے یوں کہا کہ فرض کرو میرے پاس میرے رب کی روشن اور پختہ دلیل ہو اور مجھے کامل یقین ہو کہ میں اللہ زعزوجل کا نبی ہوں اور یہ بتائو کہ اگر میں اپنے رب کے احکام کی نافرمانی کر کے تمہارے طریقہ پر چلوں تو مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کون بچائے گا تو اس صورت میں سوائے مجھے نقصان پہنچانے کے تم میرے حق میں کیا اضافہ کرو گے !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 63