أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

‌وَاِلٰى ثَمُوۡدَ اَخَاهُمۡ صٰلِحًا‌ۘ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ‌ ؕ هُوَ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاسۡتَعۡمَرَكُمۡ فِيۡهَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ‌ ؕ اِنَّ رَبِّىۡ قَرِيۡبٌ مُّجِيۡبٌ ۞

ترجمہ:

اور قوم ثمود کی طرف ہم نے ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا، صالح نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور اس میں آباد کیا۔ سو تم اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرو۔ پس میرا رب قریب ہے۔ دعا قبول کرنے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور قوم ثمود کی طرف ہم نے ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا، صالح نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور اس میں آباد کیا سو تم اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرو، پس میرا رب قریب ہے دعا قبول کرنے والا ہے۔ (ھود : ٦١) 

انسان کو زمین سے پیدا کرنے کے دو محمل

اس سورت میں انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے جو قصص ذکر کیے گئے ہیں، ان میں یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا قصہ ہے اور یہ تیسرا قصہ ہے اور اس قصہ میں وعظ اور استدلال کا وہی طریقہ ہے جو حضرت ھود (علیہ السلام) کے قصہ میں تھا البتہ اس قصہ میں جب توحید کا ذکر کیا گیا تو اس پر دو دلیلیں قائم کی گئی ہیں۔

پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا : اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اس کی دو تقریریں ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی صلب سے پیدا کیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین سے یعنی زمین کی مٹی سے پیدا کیا تھا۔

(٢) انسان منی اور حیض کے خون سے پیدا ہوتا ہے اور منی خون سے بنتی ہے اور خون غذا سے پیدا ہوتا ہے اور غذا گوشت، روٹی، سبزیوں اور پھلوں سے حاصل ہوتی ہے اور ان سب چیزوں کا مال زرعی پیداوار ہے اور زرعی پیداوارکا رجوع زمین کی طرف ہوتا ہے پس واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین سے پیدا کیا ہے۔ 

انسان اور زمین کی پیدائش سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واستعمر کم فیھا۔ قتادہ نے کہا، اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین میں آباد کیا اور ضحاک نے کہا اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہاری عمریں لمبی کیں اور قوم ثمود کی عمریں تین سو سال سے ایک ہزار سال تک ہوتی تھیں۔ زین بن اسلم نے کہا اس کے معنی ہے : زمین پر آباد ہونے کے لیے تمہیں جن چیزوں کی ضرورت تھی مثلاً مکان بنانے اور درخت اگانے کی تو اللہ تعالیٰ نے کا سامان تمہیں مہیا کیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں نہریں کھودنے، درخت اگانے اور فصل تیار کرنے کا خیال ڈالا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٩ ص ٥١، مطبوعہ دارالفکر، ١٤١٥ ھ)

زمین میں زرعی پیداوار کی استعداد اور صلاحیت رکھنا، اس میں سرسبز و شاداب جنگلوں کا پیدا کرنا اور اس میں بلند وبالا اور مستحکم عمارتوں کی قابلیت پیدا کرنا اور انسانی آبادی کی ضروریات کے لیے تمام امور فراہم کرنا اور انسان کو ان سے منافع کے حصول پر قادر بنانا اس زبردست صانع مطلق اور اس قادر وقیوم کے وجود بہت بڑی دلیل ہے اور یہ ایسی ہی دلیل ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الذی خلق فسوی والذی فدر فھدی والذی اخرج المرعی فجعلہ غثاء احوی۔ (الاعلی : ٥۔ ٢) جس نے پیدا کیا، پھر درست کیا اور جس نے اندازہ مقرر کیا پھر ہدایت دی اور جس نے (سبز) چارہ اگایا۔ پھر اسے خشک سیاہی مائل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر دنیا اور آخرت کے کاموں میں اس کی راہنمائی کے لیے اس میں عقل پیدا کی، پھر تصرف اور کام کاج کرنے کے لیے اس کو قدرت عطا کی، پھر اس کی بقا کے لیے زمین سے اس کی خوراک کو پیدا کیا، کیا یہ سب چیزیں اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ اس کو پیدا کرنے والا بہت مدبر اور ہکیم ہے۔ اس نے زمین میں ایسی صفات رکھیں جن سے مطلوبہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں، اس نے زمین میں کوئی چیز عبث بنائی ہے نہ انسان کے جسم میں کوئی چیز بےکار بنائی ہے۔ انسان کے جسم کی پنڈلیوں میں اللہ تعالیٰ نے زائد رگیں پیدا کی ہوئی ہیں اور اس زمانہ میں یہ عقدہ حل ہوا ہے کہ دل کی شریانیں جب خون میں کو لیسٹرول کی زیادتی سے بند ہوجائیں تو ان رگوں کو کاٹ کر پنڈلی سے وہ زائد رگیں نکال کر ان کو بلاک شدہ شریانوں کی جگہ پیوند کردیا جاتا ہے اور انسان کو حیات نومل جاتی ہے۔ قدرت کا یہ راز میڈیکل سائنس کی ترقی کے ذریعہ اس زمانہ میں منکشف ہوا ہے اور نہ جانے انسان کے جسم میں اور کتنے سربستہ راز ہیں جن کا عقدہ مستقبل میں کھلے گا، اس سے معلوم ہوا کہ انسان اور اسی طرح یہ ساری کائنات کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے، اس کا ہر ہر جز اور اس کی ہر ہر چیز ان گنت حکمتوں پر مشتمل ہے اور یہ سب امور اس پر گواہی دیتے ہیں کہ ان کو زبردست مدبر اور حکیم مطلق نے بنایا ہے۔ 

نیکوکاروں اور بدکاروں کے لیے دنیا کا ظرف ہونا

اس آیت میں استعمر بہ معنی اعمر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نیک مسلمانوں پوری زندگی نیک اعمال کے ساتھ آباد رکھتا ہے اور اس کی موت کے بعد اس کو نیک نامی اور اچھی شہرت کے ساتھ باقی رکھتا ہے اور اس کے برخلاف فاسق و فاجر تاحیات بری شہرت کے ساتھ برقرار رہتا ہے اور موت کے بعد بھی لوگ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ دنیا نیک لوگوں اور بدکاروں دونوں کے لیے ظرف ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی شخص کی نیک نامی اس کی نسل کے قائم مقام ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی : واجعل لی لسان صدق فی الاخرین۔ (الشعراء : ٨٤) اور میرے بعد آنے والوں میں میرا ذکر جمیل جاری رکھ۔ وجعلنا ذریتہ ھم البقین۔ وترکنا علیہ فی الاخرین۔ الصفت : ٧٨۔ ٧٧) اور ہم نے ان کی اولاد ہی کو باقی رکھا اور بعد میں آنے والوں میں ہم نے ان کا ذکر چھوڑا۔ وبرکنا علیہ وعلی اسحاق ومن ذریتھما محسن و ظالم لنفسہ مبین۔ (الصفت : ١١٣) اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر بہت برکتیں فرمائیں اور ان کی اولاد میں سے بعض نیکوکار ہیں اور بعض اپنی جانوں پر کھلا ظلم کرنے والے ہیں۔ 

عمریٰ کا معنی

قرآن مجید کی اس آیت میں استعمر کا لفظ ہے اور ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ استعمر، اعمر کے معنی میں ہے۔ اعمر کا معنی ہے عمر گزارنا اور اسی سے عمریٰ کا لفظ بنا ہے۔

علامہ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ نے لکھا ہے کہ جو چیز تم کو تاحیات دی جائے وہ عمریٰ ہے۔ ثعلب نے کہا : عمریٰ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو مکان دے اور یہ کہے کہ یہ مکان تمہارے لیے تاحیات ہے اور جب وہ مرگیا تو وہ مکان، دینے والے کی طرف لوٹ جائے گی۔ عمریٰ اصل میں عمر سے ماخوذ ہے اور رقبی مراقبہ (انتظار کرنا) سے بنا ہے، رقبی یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں پہلے مرگیا تو تم اس کے مالک ہو اور اگر تم پہلے مرگئے تو میں اس کا مالک ہوں گا اور ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کرتا رہے۔ (تاج العروس ج ٣ ص ٤٢١، مطبوعہ مطبعہ خیریہ، مصر ١٣٠٦ ھ) 

عمریٰ کے متعلق احادیث

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کو اور اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی گئی سو یہ چیز اسی کے لیے ہے جس کو دی گئی ہے۔ وہ چیز دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٢٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٥٥٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٥٠، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٧٤٥، صحیح مسلم کتاب الھبتہ رقم الحدیث : ٢٠، (١٦٢٥) رقم مسلسل : ٤١١٠)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی شخص کو اور اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی اور اس سے کہا کہ ” میں نے تم کو اور تمہارے وارثوں کو اس وقت تک کے لیے یہ چیز دی ہے جب تک تم میں سے کوئی باقی رہے۔ “ سو یہ چیز اس کی ہوجائے گی جس کو دی گئی ہے اور اس چیز کے مالک کی طرف نہیں لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم، کتاب الھبتہ رقم الحدیث : ٢٢ رقم بلا تکرار ١٦٢٥، رقم مسلسل : ٤١١٢)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کو اور اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی گئی وہ قطعی طور پر اس کی ہے، دینے والے کے لیے اس میں کوئی شرط لگانا جائز ہے نہ استثناء کرنا۔ ابو سلمہ نے کہا : کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوتی ہے اور وراثت نے اس کا حق منقطع کردیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الھبتہ رقم الحدیث : ٢٤، رقم بلا تکرار : ١٦٢٥، رقم مسلسل : ٤١١٤) 

عمریٰ میں مذاہب ائمہ

علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ نے لکھا ہے کہ ایک شخص یہ کہے کہ میں نے تمام عمر کے لیے یہ مکان تم کو دیا، جب تم فوت ہو جائو گے تو یہ مکان تمہارے وارثوں کا ہوگا یہ عمریٰ بالاتفاق صحیح ہے اور وہ شخص اس مکان کا مالک ہوجائے گا اور اس کی موت کے بعد اس کے وارث مالک ہوں گے اور اگر اس کے وارث نہ ہوں تو اس کی ملکیت بیت المال کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ امام مالک کا اس میں اختلاف ہے۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٣٨، مطبوعہ مطبع نور محمد کراچی، ١٣٧٥ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ نے لکھا ہے : امام مالک کا شوہر قول یہ ہے کہ عمریٰ کرنے والا یوں کہے کہ میں نے تم کو یہ مکان مدت عمر کے لیے دیا، پھر یہ مکان تمہارے وارثوں کا ہے یا یوں کہے کہ میں نے تم کو یہ مکان مدت عمر کے لیے دیا اور قید نہ لگائے۔ ان صورتوں میں مکان لینے والے یا اس کے ورثاء کی موت کے بعد، مکان دینے والے یا اس کے وارثوں کی طرف لوٹ جائے گا، کیونکہ مسلمان کی لگائی ہوئی شرائط کا اعتبار ہوتا ہے اور اس لفظ کا مدلول لغوی بھی یہی ہے۔ (کمال المعل بفوائد مسلم لقاضی عیاض ج ٥ ص ٣٥٧، مطبوعہ دارالوفاء بیروت ١٤١٩ ھ)

علامہ ابن قدامہ حنبلی نے لکھا ہے کہ جب عمریٰ کرنے والا اس کو مطلق رکھے تو جس کو وہ چیز دی گئی ہے وہ چیز اس کی اور اس کے ورثا کی ملکیت ہے اور جب اس نے یہ شرط لگائی کہ جب تم مرگئے تو یہ چیز میری ہوجائے گی تو اس کے متعلق امام احمد سے دو روایتیں ہیں : ایک روایت یہ ہے کہ عقد اور شرط دونوں صحیح ہیں اور جب معمرلہ مرجائے گا تو وہ چیز دینے والے کی طرف لوٹ جائے گی اور دوسری روایت یہ ہے کہ عقد صحیح ہے اور شرط باطل ہے اور وہ چیز معمرلہ کے بعد اس کے وارثوں کی طرف لوٹ جائے گی۔ (المغنی ج ٥ ص ٤٠١، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤٠٥ ھ)

شمس الائمہ محمد بن احمد سر خسی حنفی متوفی ٤٨٣ ھ لکھتے ہیں : جب کسی شخص نے دوسرے شخص سے کہا : میں نے تم کو عمر بھر کے لیے یہ مکان دیا اور وہ مکان اس کے سپرد کردیا تو یہ ہبہ صحیح ہے اور جس کے لیے ہبہ کیا گیا ہے وہ اس کا فوراً مالک ہوجائے گا اور اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس کے مالک ہوں گے، اس لیے اس کی موت کے بعد اس کی واپسی کی شرط باطل ہے اور ہبہ شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (المبسوط ج ١٢ ص ٩٥۔ ٩٤، ملخصاً ، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت، ١٤٩٨ ھ)

اس کے بعد فرمایا : اللہ سے استغفار کرو، یعنی اپنی بت پرستی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو، پھر فمرایا : پھر اس کی طرف توبہ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رجوع کرو، بیشک میرا رب دعا کرنے والے کی دعا کو قبول فرماتا ہے، اس آیت کے ان الفاظ کی تفسیر اور دعا کے مقبول ہونے اور دعا کے آداب اور شرائط کے متعلق مکمل بحث البقرہ : ١٨٦ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 61