وَيٰقَوۡمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً فَذَرُوۡهَا تَاۡكُلۡ فِىۡۤ اَرۡضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوۡهَا بِسُوۡٓءٍ فَيَاۡخُذَكُمۡ عَذَابٌ قَرِيۡبٌ ۞- سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 64
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيٰقَوۡمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً فَذَرُوۡهَا تَاۡكُلۡ فِىۡۤ اَرۡضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوۡهَا بِسُوۡٓءٍ فَيَاۡخُذَكُمۡ عَذَابٌ قَرِيۡبٌ ۞
ترجمہ:
اے میری قوم ! یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے نشانی ہے سو اس کو چھوڑ دو یہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تم کو عنقریب عذاب پہنچے گا۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (حضرت صالح نے کہا) اے میری قوم ! یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے نشانی ہے، سو اس کو چھوڑ دو یہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تم کو عنقریب عذاب پہنچے گا۔ (ھود : ٦٤)
انبیاء (علیہم السلام) کی تبلیغ کی ترتیب
جو نبی بت پرستوں کے سامنے دعویٰ نبوت کرتا ہے وہ سب سے پہلے ان کو بت پرستی ترک کرنے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے پھر اس کے بعد ان کے سامنے اپنی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جب وہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر قوم اس سے اس کی نبوت پر دلیل اور معجزہ کو طلب کرتی ہے، سو حضرت صالح (علیہ السلام) کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ روایت ہے کہ ان کی قوم عید کے موقع پر گئی ہوئی تھی، اس وقت انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے یہ سوال کیا کہ وہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں، انہوں نے پہاڑ کی ایک چٹان کی طرف اشارہ کر کے کہا اس چٹان سے انہیں اونٹنی نکال کردکھائیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو ان کی فرمائش کے مطابق اس چٹان سے اونٹنی نکل آئی۔
حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کے معجزہ ہونے کی وجوہ
اس اونٹنی کا حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت پر معجزہ ہونا حسب ذیل وجوہ سے ہے :
(١) اللہ تعالیٰ نے اس چٹان سے اس اونٹنی کو پیدا کیا۔
(٢) اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے اندر اس اونٹنی کو پیدا کیا، پھر اس پہاڑ کو شق کر کے اس اونٹنی کو نکالا۔
(٣) اللہ تعلایٰ نے بغیر کسی نر کے اس اونٹنی کو حاملہ بنایا۔
(٤) اللہ تعالیٰ نے بغیر ولادت کے مکمل جسامت اور شکل و صورت کے ساتھ اس اونٹنی کو پیدا کیا۔
(٥) روایت ہے کہ ایک دن وہ کنویں سے پانی پیتی تھی اور ایک دن پوری قوم پانی پیتی تھی۔
(٦) اس سے بہت زیادہ مقدار میں دودھ حاصل ہوتا تھا جو پوری قوم کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ تمام وجوہات اس کے معجزہ ہونے پر بہت قوی دلیل ہیں، لیکن قرآن کریم میں صرف یہ مذکور ہے کہ وہ اونٹنی آیت اور معجزہ تھی، باقی رہا یہ کہ وہ کس اعتبار سے معجزہ تھی، اس کا قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے۔
اونٹنی سے قوم کی دشمنی کا سبب پھر حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا ” سو اس کو چھوڑ دو یہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے۔ “ اس قول سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ قوم سے مشقت کو دور کریں، وہ اونٹنی ان کے لیے معجزہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو نفع پہنچاتی تھی اور ان کو نقصان نہیں دیتی تھی، کیونکہ وہ اس کے دودھ سے فائدہ اٹھاتے تھے جیسا کہ روایات میں ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ وہ کفر پر اصرار کر رہے ہیں تو ان کو اس اونٹنی کے لیے خطرہ محسوس ہوا، کیونکہ لوگ اپنے مخالف کی حجت اور دلیل کے غلبہ سے بغض رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنے مخالف کی حجت کو کمزور اور باطل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اس وجہ سے حضرت صالح (علیہ السلام) کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ یہ لوگ اس اونٹنی کو قتل کردیں گے، اس لیے انہوں نے پیش بندی کے طور پر فرمایا : اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ عنقریب تم کو عذاب پہنچے گا اور اس میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید تھی جو اس اونٹنی کو قتل کرنے کا ارادہ کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے اس شدید و عید کے باوجود اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں اور اس کو قتل کردیا، چناچہ فرمایا :
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 64