وجد اور اسم ذات کے ذکر پر انجینئر محمد علی مرزا کا اعتراض
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وجد اور اسم ذات کے ذکر پر انجینئر محمد علی مرزا کا اعتراض :
انجینئر محمد علی مرزا صاحب کی ایک وڈیو دیکھی جس میں محمد علی مرزا صاحب وجد اور اسم ذات کے ذکر پر اپنے اعتراضات پیش کر رہے ہیں۔ اور اس وڈیو کو شیئر کرنے والے صاحب نے وڈیو کا کیپشن یہ دیا ہوا تھا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں وجد اور ذکر (اسم ذات) کی حقیقت۔ میں نے تو کئی بار وڈیو کو دیکھا اور سنا کہ شاید مجھے سننے میں غلطی ہو گئی ہولیکن بار بار سننے کے باوجود اس وڈیو میں مجھے کوئی قرآن کی آیت یا باحوالہ حدیث مبارکہ نہیں ملی جس سے استدلال کرتے ہوئے مرزا صاحب نے وجد اور ذکر اسم ذات کو غلط ثابت کیا ہو ۔ بہرحال ان کے عقیدتمندوں کی عقیدتمندی اپنی جگہ لیکن ان کے اعتراضات کا جواب بتوفیق الٰہی قرآن پاک کی آیت اور احادیث مبارکہ کے مکمل حوالے اور تصحیح کے ساتھ پیش خدمت ہے
وجد پر اعتراض :۔
انجینئر محمد علی مرزا کہتا ہے کہ :
وجد تماشا ہے یہ تو کافروں کو بھی ہوتا ہے اور انڈیا کے گانوں پر بھی ہو جاتا ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اگر ہوتا تو ہندوؤں کو وجد نہ ہوتا
الجواب بعون الوھاب :
وجد کیا ہے ؟
فیروز اللغات میں وجد کا معنی یہ لکھا ہے کہ:
“بے خودی، سرمستی، وارفتگی کا عالم، کسی شدید جذبے سے مغلوب ہو کر آپے سے باہر ہو جانا اور وہ حالت و کیفیت جو عشق الٰہی میں دل پر ایسے طاری ہو کہ انسان بے خود ہو جائے۔ “
اب دیکھتے ہیں کہ کیا اس کیفیت کی دین میں کوئی گنجائش ہے یا نہیں۔ تمام مکاتب فکر قرآن و احادیث پر متفق ہیں۔ مرزا جہلمی بھی اپنے آپ کو مسلم علمی کتابی کہلواتا ہے وہ الگ بات ہے کہ کتاب اور علم سے اس کا جو واسطہ ہے وہ اھل علم پر بخوبی عیاں ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کیفیت کا جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن سے دلیل :۔
1۔ سورة الزمر میں ہے :۔
“اللہ نزل احسن الحدیث کتٰباََ متشابھاََ مثانی تقشعر منه جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ “
الزمر:23
ترجمہ : اللہ نے ایسی اچھی کتاب نازل فرمائی ہے جس کی آیتیں باہم ملتی جلتی ہیں بار بار دہرائی جاتی ہیں جس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے دل کانپنے لگتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو جاتے ہیں اور اللہ کے ذکر میں لگ جاتے ہیں۔
اس آیت سے بڑی صراحت کے ساتھ وجد کی اصل کا ثبوت ملتا ہے۔ بار بار قرآنی آیات دہرانے سے انسان کے دل کا کانپنے لگ جانا اور بدن کا نرم پڑ جانا یہ وجد ہی کی کیفیات ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں کہ :۔
” اس بے نظیر کلام کا اللہ سے ڈرنے والوں پر تو یہ اثر ہوتا ہے کہ سن کر ان کا دل لرز جاتا ہے بدن پر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یاد الٰہی کا ان کے جسم اور روح دونوں پر اثر ہو جاتا ہے۔یہ کاملین کا حال ہے۔ جو ضعفاء اور غیر کامل ہیں ان پر بے ہوشی، بے طاقتی اور وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے وہ بے خود ہو کر چھلک جاتے ہیں۔ (یعنی جھومنے لگتے ہیں)
( امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ آج سے کم و بیش ساڑھے چھ سو سال قبل کے بزرگ ہیں جو اپنے وقت کے جلیل القدر محدث اور مفسر تھے جنہیں دو لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں، اور بیداری کے عالم میں آپ نے ستر سے زائد بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا ۔ اور ان کی جس تفسیر کا حوالہ ذکر کیا ہے یہ تفسیر تمام مکاتب فکر کے درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے۔ )
2۔ فلما راینه اکبرنه و قطعن ایدیھن
یوسف:31
اور جب انہوں نے اسے (یوسف علیہ السلام کو) دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیئے۔
یہ آیت بھی وجد کی کیفیت طاری ہو جانے کا صریح اور قطعی الدلالت ثبوت ہے۔ جب زنان مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بے مثال حسن کو دیکھا تو وہ اس قدر بے خود ہو گئیں کہ انہوں نے چھری سے اپنے ہاتھ کاٹ لیئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اسی کیفیت کو تو وجد کہا جاتا ہے کہ انسان کسی جذبے سے مغلوب ہو کر اس قدر بے خود ہو جائے کہ اپنا آپا کھو بیٹھے۔
احادیث طیبہ سے دلیل :
1۔مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ : حبشی رسول اللہ ﷺ کے سامنے رقص کرتے تھے اور اپنی زبان سے یہ کہتے تھے محمد عبد صالح ۔
یہ حدیث صحیح ہے۔
لیکن آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ یہ روایت وجد اور وجد کی حالت میں رقص کے جواز پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح مسند احمد میں مسند علی بن ابی طالب کی ایک اور روایت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت زید بن جعفر رضی اللہ عنہ کا حضور اکرم ﷺ سے اپنے لیئے بشارت پا کر مسرت و انبساط سے مغلوب ہو کر ایک ٹانگ پر رقص کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
2۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک دن نمازِ فجر کا سلام پھیراتو آپ پرغم کی کیفیت طاری تھی اور آپ اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر فرمارہے تھے : ” میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہے لیکن آج میں ان جیسی کوئی بات نہیں پاتا ۔ وه حضرات اس حالت میں صبح کرتے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ، چہرے زرد اور غُبار آلود ہوتے اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان سجدوں کے نشانات ہوتے ۔ ان کی راتیں اللہ لیے سجدوں میں اور قیام کی حالت میں تلاوتِ قرآن میں گزرتیں اور وہ باری باری اپنی پیشانی اور پاؤں کو عبادت کے لئے استعمال کرتے ( کبھی سجدہ کرتے اور کبھی قیام ) ۔ جب صبح ہوتی اور یہ لوگ اللہ کا ذکر کرتے تو اس طرح سے کانپتے جیسے سخت ہوا کے دن میں درخت ہلتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس قدر آنسو بہاتیں کہ ان کے کپڑے بھیگ جاتے ۔ اللہ کی قسم ! اب میں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں جو غفلت کی حالت میں رات گزارتے ہیں ۔ اتنا فرمانے کے بعد آپ وہاں سے تشریف لے گئے اور پھر آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا یہاں تک کہ ابن مُلجم نے آپ کو شہید کردیا ۔
احیاء العلوم از حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ علیه،بیان احوال الصحابۃ والتابعین ،جلد 4 ص 224
اس روایت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اللہ کے ذکر کے وقت صحابہ کرام کی یہ کیفیت بتاتے ہیں کہ وہ سخت ہوا میں سوکھے درختوں کی طرح ہلتے تھے۔ ہر ذہ فہم بخوبی جانتا ہے کہ تیز ہوا میں سوکھے درختوں کے ہلنے کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ اسی کیفیت کو وجد کہتے ہیں۔
قرآن و احادیث طیبہ سے وجد کی دلیل کے بعد محمد علی مرزا نے جو وجد کو تماشا قرار دیا ہے اس کی بات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ؟
رہا یہ اعتراض کہ وجد تو کافروں کو بھی ہوتا ہے۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر کچھ فوق العادت امور پر دسترس عطا فرمائی ہے۔ جب ہم قرآن کھولتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جادوگر بھی فوق العادت امور پر دسترس رکھتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں جادوگروں کا رسیوں کو سانپ بنا دینے کا واقعہ قرآن میں مذکور ہے۔ تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ جادوگر بھی فوق العادت امور پر قدرت رکھتے ہیں لہذا انبیاء کے لیئے ایسی قدرت ثابت کرنا جائز نہیں ؟ یہ کس قدر بچگانہ دلیل ہے۔ یعنی کہ سچ بولنا ، ایمانداری اور اس طرح کے دیگر خصائل چونکہ ہندوؤں میں بھی پائے جاتے ہیں لہذا یہ مسلمانوں میں نہیں پائے جا سکتے ؟ کیا اس کی یہ منہ کی بات اس لائق ہے کہ اسے دلیل کا درجہ دیا جا سکے ؟
اسم ذات (اللہ اللہ) کے ذکر پر اعتراض :
محمد علی مرزا بڑے تفاخر اور تکبر کے ساتھ کہتا ہے کہ میرا چیلنج ہے کہ اسم ذات یعنی اللہ اللہ کا ذکر کہیں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ صرف اللہ کہنے سے جملہ مکمل نہیں ہوتا ۔
الجواب بعون الوھاب :۔
محمد علی مرزا نے اپنی اس بات کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی کہ اللہ کا ذکر صرف اور صرف جملہ کی شکل میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور مرکب جملہ کے علاوہ ذکر کرنا جائز نہیں۔ بہرحال اس کے اس متکبرانہ چیلنج کے جواب میں اس نام نہاد کتابی مسلم کو صحیح مسلم سے دلیل پیش کرتے ہیں:۔
عن انس، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قال : لا تقوم الساعة، حتی لا یقال فی الارض : اللہ اللہ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت قائم نہ ہو گی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہا جاتا ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب ذھاب الایمان آخر الزمان، حدیث 375
صحیح مسلم کی اس حدیث سے صراحت کے ساتھ اللہ اللہ کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ اللہ کا ذکر کرنا کہیں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ اب یہ روایت بھی صحیح مسلم کی ہے یہاں یہ لوگ اپنا پرانا ہتھکنڈہ بھی استعمال نہیں کر سکتے (یعنی حدیث کو ضعیف کہہ دینا)
جب لوگ دینی علوم کے ماھرین سے دین سیکھنے کے بجائے انجینئر سے دین سیکھنا شروع ہو جائیں تو یہی حال ہوتا ہے۔۔۔۔ اسی لیئے کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔۔!!!
اللھم ارنا الحق حقاََ وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلاََ و ارزقنا اجتنابه
اے اللہ ! ہمیں حق کو واضح دکھا اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو واضح دکھا اور اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرما !
آمین ثم آمین