وَاِلٰى مَدۡيَنَ اَخَاهُمۡ شُعَيۡبًا ؕ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ ؕ وَلَا تَـنۡقُصُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ اِنِّىۡۤ اَرٰٮكُمۡ بِخَيۡرٍ وَّاِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ مُّحِيۡطٍ ۞- سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 84
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِلٰى مَدۡيَنَ اَخَاهُمۡ شُعَيۡبًا ؕ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ ؕ وَلَا تَـنۡقُصُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ اِنِّىۡۤ اَرٰٮكُمۡ بِخَيۡرٍ وَّاِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ مُّحِيۡطٍ ۞
ترجمہ:
اور (ہم نے) مدین والوں کی طرف ان کے ہم قبیلہ شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو، بیشک میں تم کو خوش حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر احاطہ کرنے والے دن کے عذاب کا خوف ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (ہم نے) مدین والوں کی طرف ان کے ہم قبیلہ شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو، بیشک میں تم کو خوش حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر احاطہ کرنے والے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ (ھود : ٨٤)
ناپ اور تول میں کمی کرنے کی ممانعت
اس سورت میں انبیاء (علیہم السلام) کے جو قصص ذکر کیے گئے ہیں یہ ان میں سے چھٹا قصہ ہے، جو حضرت شعیب (علیہ السلام) سے متعلق ہے، حضرت شعیب (علیہ السلام) کا سوانحی خاکہ ہم نےالاعراف : ٨٥ میں تفصیل سے ذکر کردیا ہے۔ مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے کا نام ہے، پھر یہ حضرت شعیب کے قبیلہ کا نام پڑگیا اور اکثر مفسرین نے یہ کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ ہم ہلے یہ بیان کرچکے ہیں انبیاء (علیہم السلام) کو سب سے پہلے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ توحید کی دعوت دیں، اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے سب سے پہلے یہ حکم دیا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے توحید کی دعوت دینے کے بعد ان کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو کام زیادہ اہم ہو اس کی دعوت دیں کفر کے علاوہ ان کی بری عادت یہ تھی کہ جب کوئی شخص ان کے پاس کچھ بیچنے کے لیے آتا تو وہ تول میں اس سے اس چیز کو جتنا زیادہ لے سکتے، اتنا لے لیتے اور جب وہ خود کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کرتے تھے۔ سو یوں وہ خریدو فروخت دونوں میں دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچاتے تھے، پھر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا : میں تم کو خوش حال دیکھتا ہوں، یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت فراوانی سے مال و دولت کے ساتھ نوازا ہے پھر تم کو ان ناجائز طریقوں سے مال و دولت جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کے بعد فرمایا : مجھے تم پر احاطہ کرنے والے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ احاطہ کرنا یا تو عذاب کی صفت ہے یعنی جس عذاب سے کوئی عذاب کا مستحق بچ نہیں سکے گا، یا محیط اس دن کی صفت ہے پھر یہ کون سا عذاب ہے ؟ اس میں بھی اختلاف ہے، بعض علماء نے کہا اس سے مراد قیامت کے دن کا عذاب ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے جو تمام معذبین کے عذاب کو محیط ہوگا اور بعض علماء نے کہا اس سے مراد وہ عذاب ہے جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے کافروں کو دنیا میں ملیامیٹ کرنے کے لیے آنے والا تھا جیسا کہ تمام انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی امتوں کے کافر لوگوں پر ایسا عذاب آتا رہا ہے اور بعض مفسرین نے کہا، اس عذاب سے مراد عام ہے خواہ دنیاوی عذاب ہو یا قیامت کے دن کا عذاب ہو۔ انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت دو اہم چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے : حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی۔ اول الذکر کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے اس قول پر اشارہ کیا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اور ثانی الذکر کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا اور ناپ تول میں کمی کرنا بہت قبیح جرم ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سورت ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے عذاب کی وعید سے معنون فرمائی ہے۔ ویل للمطففین الذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفون واذا کالوھم او وزنوھم یخسرون الا یظن اولئک انھم مبعوثون لیوم عظیم یوم یقوم الناس لرب العلمین۔ (المطففین : ٦۔ ١) ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے عذاب ہے۔ جو لوگ جب لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب انہیں ناپ کردیں تا تول کردیں تو گھٹا کردیں کیا وہ لوگ یہ گمان نہیں کرتے کہ ان کو مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا عظیم دن میں جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیچنے والے کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ کوئی چیز تول کر فروخت کرے تو سودے کا پلڑا جھکتا ہوا رکھے۔ حضرت سوید بن مخرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور مخرمہ ہجر سے ایک بزاز کے پاس آئے ہم نے ایک شلوار کی قیمت لگائی اور میرے پاس ایک شخص تھا جو اجرت پر وزن کرتا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : وزن کرو اور جھکتا ہوا دو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٣٣٦، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٤٣٤١، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧، ص ٥٨٥، مسند احمد ج ٤، ص ٣٥٢، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٥٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٣٠٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٢٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥١٤٧، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦٤٦٦، المستدرک ج ١، ص ٣٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٦٠٦)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 84