أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيٰقَوۡمِ لَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شِقَاقِىۡۤ اَنۡ يُّصِيۡبَكُمۡ مِّثۡلُ مَاۤ اَصَابَ قَوۡمَ نُوۡحٍ اَوۡ قَوۡمَ هُوۡدٍ اَوۡ قَوۡمَ صٰلِحٍ‌ؕ وَمَا قَوۡمُ لُوۡطٍ مِّنۡكُمۡ بِبَعِيۡدٍ‏ ۞

ترجمہ:

اور اے میری قوم ! میری مخالفت تم کو ان کاموں پر نہ ابھارے جن کاموں کی وجہ سے تم پر ایسا عذاب آجائے جیسا عذاب قوم نوح پر یا قوم ھود پر یا قوم صالح پر آیا تھا اور قوم لوط تم سے زیادہ دور تو نہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (حضرت شعیب نے کہا) اور اے میری قوم ! میری مخالف تم کو ان کاموں پر نہ ابھارے جن کاموں کی وجہ سے تم پر ایسا عذاب آجائے جیسا عذاب قوم نوح پر یا قوم ھود پر یا قوم صالح پر آیا تھا اور قوم لوط تم سے زیادہ دور تو نہیں اور تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرو بیشک میرا رب رحم فرمانے والا محبت کرنے والا ہے۔ (ھود : ٩٠۔ ٨٩) 

حضرت شعیب (علیہ السلام) کے خطاب کا تتمہ اور قوم کو نصیحت

ان آیتوں کا معنی یہ ہے کہ حضرت شعیب نے فرمایا : اے میری قوم ! میرا بغض اور مجھ سے عداوت اور میرے دین سے نفرت تمہیں اس پر نہ ابھارے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور بت پرستی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور توبہ اور استغفار کو ترک کرنے پر جمے رہے اور ڈٹے رہو حتیٰ کہ تم پر بھی ایسا عذاب آجائے جو تم کو جڑ سے اکھاڑ کر ملیامیٹ کر دے جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر طوفان سے غرق کرنے کا عذاب آیا اور حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم پر ایک سخت اور زبردست آندھی کا عذاب آیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم پر ایک چنگھاڑ اور زلزلہ کا عذاب آیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے اوپر ان کی زمین کو پلٹ دیا گیا۔ اور فرمایا : اور قوم لوط تم سے زیادہ دور تو نہیں۔ اس سے بعد مکانی مراد ہے کیونکہ لوط (علیہ السلام) کی بستی مدین کے قریب تھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے بعد زمانی مراد ہو کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے زمانہ میں لوگوں کو معلوم تھا کہ کچھ عرصہ پہلے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کردیا گیا تھا ہر صورت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب آنے کا واقعہ ان سے مخفی نہیں تھا، اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا : تم ان حالات عبرت پکڑو اور سبق سیکھو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (علیہ السلام) کی مخالفت کرنے سے گریز کرو و ورنہ تم پر بھی پچھلی قوموں کی طرح عذاب آجائے گا۔ اس کے بعد فرمایا : تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرو یعنی پہلے اپنے کفر اور شرک، ناپ تول میں کمی اور دیگر گناہوں پر نادم ہو کر ان کو ترک کرو اور آئندہ ان کو نہ کرنے کا عہد صمیم کرو پھر اپنے سابقہ کفر اور معاصی کی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سابقہ کفر کو اور معاصی کو معاف فرمادے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت رحیم اور کریم ہے اور توبہ اور استغفار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا یہ خطاب بہت مرتب اور منظم ہے، انہوں نے سب سے پہلے یہ بیان کیا کہ ان کی نبوت کے دلائل بہت روشن اور واضح ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی نعمتیں بہت وافق تعداد میں عطا فرمائی ہیں اور یہ چیز ان کو اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے میں تقصیر کرنے اور خیانت سے مانع ہے اور یہ بیان کیا کہ وہ مسلسل پابندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کر رہے ہیں اور تم کو بھی یہ اعتراف ہے کہ میں بہت بردبار اور نیک ہوں سو اگر دین کی یہ دعوت باطل ہوتی تو میں ہرگز اس میں مشغول نہ ہوتا، پھر فرمایا : تم مجھ سے جو عداوت رکھتے ہو اور میرے طریقہ کی مخالفت کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری یہ عداوت اور مخالفت تم کو پچھلی قوموں کی طرح عذاب سے دوچار کر دے، آخر میں ان کو پھر عذاب سے ڈرایا اور توبہ اور استغفار کرنے اور ایمان لانے کی دعوت دی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 89