با ادب بچہ
🌷🌷با ادب بچہ🌷🌷
غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی
ضبط کے باوجود آنسو چھلک ہی پڑے… ایک بار پھر نواسے کے انتقال کی خبر نے سفید ریش نانا کو آبدیدہ کر دیا… یکے بعد دیگرے بیٹی کے گھر خوشیوں نے دستک دی… لیکن نئی زندگی کی آمد پر دل کھول کر خوشی منا بھی نہیں پائے تھے کہ موت کے آہنی پنجوں نے خوشیوں کی ڈور بیچ میں ہی کاٹ دی…خوشی سے دمکتے چہرے حسرت ویاس کی مورت بن گئے…جن ہاتھوں میں نئی زندگی کو لیکر مستقبل کے حسین خواب دیکھے ،انہیں ہاتھوں سے ننھی جان کو سپرد خاک کرنا پڑا… بیٹی کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے بوڑھے باپ شیخ کرامت علی کے دل کو گھایل کردیا… درد جب حد سے بڑھا تو تو پیشانی بارگاہ مولیٰ میں جھک گئی… ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی جانب دیکھا… لرزتے ہونٹوں سے آواز نکلی:
اے رحم فرمانے والے رب!
سوکھے پتّوں کو ہریالی عطا فرمانے والے خالق کائنات…بنجر زمین کو شاداب فرمانے والے قادر مطلق…تیری رحمتوں کے بادلوں سے خشک صحرا بھی دریا ہوجاتے ہیں…تیرے ایک حکم سے خزاں میں بہار آجاتی ہے…
اے پاک بے نیاز!
میری بیٹی درد والم کی کئی آزمائشوں سے گزر چکی ہے…اے زندگی عطا فرمانے والے مہربان رب!
میری بیٹی کو ایسا طالع مند بیٹا عطا فرما جو تیرے خزانہ رحمت سے عمر طبعی لیکر آئے…یہ سفید ریش بوڑھا تیری بارگاہ میں اپنے سفید بالوں کو پیش کرتا ہے ، میری گریہ و زاری کو قبول فرما…میں تیری بارگاہ میں منت مانتا ہوں کہ اس نو مولود کو تیرے دین کی خدمت لیے وقف کردوں گا !!
کہتے ہیں بندہ جب غموں سے نڈھال ہوتا ہے تو دل کی آواز عرش اعظم تک جاتی ہے… ستّر ماؤں سے زیادہ مہربان رب، درد مند دل اور سفید ریش بندوں کی دعاؤں کو رد نہیں فرماتا… شیخ کرامت علی کی دل کی آواز باب اجابت سے ٹکرائی اور 1311ھ/1893ء کو ان کی دختر نیک اختر کے گھر ایک سعادت آثار بیٹے کی ولادت ہوئی…پہلے بھی خوشیوں کے کئی پھول کھلتے ہی مرجھا گئے تھے ، سو گھر میں نیا پھول کھلنے کی خوشی تو تھی لیکن انجانے خوف سے دل پریشان بھی تھا…مگر نانا جان کو اپنے رب کی رحمت پر یقین کامل تھا… یقین کی کیفیت چہرے پر بہ صورت اطمینان صاف نظر آرہی تھی… نانا کی دعائے سحر گاہی رد نہ گئی اور بچہ ماں باپ کی گود میں پروان چڑھتا گیا…آہستہ آہستہ دن گزرے ، عمر کی بہاریں بڑھیں تو منت کے مطابق بچے کو تحصیل علم کے لیے مدرسے میں داخل کردیا گیا…ناظرہ اور حفظ قرآن حافظ محمد حسین اور عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں مولانا نظام الدین سے پڑھیں…اعلی تعلیم کے لیے نانا جان نے شہر کے ایسے عالم دین کی درس گاہ کا رخ کیا جو “نوجوانی ہی میں بزرگی” کے منصب پر فائز تھا…جس کی علمی شہرت ملک بھر میں پھیل رہی تھی…شیخ کرامت علی اپنے عزیز از جان نواسے کو لیکر حاضر بارگاہ ہوئے اور بچے کو شاگردی میں قبول کرنے کی گزارش کی…استاذ نے ایک نگاہ اٹھا کر دیکھا بچے کی پیشانی میں سعادت وفیروز بختی کے آثار نمایاں تھے…بغرض امتحان ایک سوال پوچھ لیا…علم کے جبل شامخ کی بارگاہ ،اور ان کی علمی شوکت کے باعث بچے کو کچھ جھجھک سی ہوئی جس کے باعث امیدوں کے مطابق جواب نہ بن سکا…استاذ نے معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے فرمایا:
“بیٹا کیا استاذ نے یہی پڑھایا ہے؟”
بچے نے نہایت نیازمندی سے سر جھکا کر عرض کیا:
“حضور، استاذ محترم نے تو ٹھیک ہی پڑھایا تھا مگر مجھے یہی یاد رہا”
بچے کا ادب اور استاذ کے تئیں جذبہ احترام دیکھ کر استاذ محترم نے بچے کی پیشانی کو چوم لیا…نہ صرف شاگردی بلکہ فرزندی میں قبول فرما لیا !!
جانتے ہیں یہ ہونہار بچہ اور استاذ گرامی کون تھے؟
یہ استاذالعلما ،فخرالاماثل صدرالافاضل، حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ العزیز تھے… جو مرادآباد میں اپنا خوان علمی سجائے ہوئے تھے… جنہیں دیکھ کر مجدد وقت امام احمد رضا نے کہا تھا:
“مولانا نعیم الدین کو دیکھ کر میرا علم جوش مارتا ہے”
اور وہ سعادت مند بچہ کوئی اور نہیں نعیمیت کے معمار اول، نگاہ صدرالافاضل کا حسین انتخاب، تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی قدس سرہ العزیز تھے !!
تاج العلما کا جذبہ ادب دیکھ کر صدرالافاضل نے آپ کے دامن کو علمی جواہرات سے بھر دیا…علم وفضل کی سعادتیں آپ کا مقدر بنتی گئیں… علمی عظمت کا سورج نصف النہار پر چمکا… ایک طرف درس گاہ میں بیٹھ کر فقیہ اعظم مفتی عبد الرشید ناگپوری ، امام النحو علامہ غلام جیلانی میرٹھی اور مفتی حبیب اللہ نعیمی ، مفتی محمد حسین نعیمی ، مفتی عبداللہ جان نعیمی جیسے مایہ ناز شاگرد تیار کئے تو ماہنامہ السوادالاعظم مرادآباد کے مدیر اعلی کے طور پر اہل سنت کے صحافتی محاذ کو سنبھالا… نوک قلم سے جہاں دین بیزاروں کے عزائم کو خاک آلود کیا وہیں عشق رسالت مآب ﷺ کے پاکیزہ احساسات سے دشت تحریر کو گلزار بھی کیا…صدرالافاضل کی مایہ ناز تفسیر خزائن العرفان کی کتابت اور اعلی حضرت کے شاہکار ترجمہ قرآن کنزالایمان کی اولین طباعت کا شرف حاصل کیا…جامعہ نعیمیہ کے مہتمم اول مقرر ہوئے…مطبع نعیمی مرادآباد سے علمی کتابوں کی اشاعت فرمائی… مرادآباد کے قاضی شرع مقرر ہوئے…شہزادگان صدرالافاضل کی علمی تربیت بھی انہیں کے حصے میں آئی…صدرالافاضل کی محبت واعتماد کا یہ عالم تھا کہ گھریلو ضروریات کی ذمہ داری بھی آپ کو سونپ رکھی تھی…صدرالافاضل کو آپ سے اس قدر محبت تھی کہ وصال سے پہلے اپنے لائق وفائق فرزند اکبر صدرالعلما مولانا سید ظفرالدین کے ہوتے ہوئے بھی آپ کو مہتمم نامزد فرمایا…بعد وصال صدرالافاضل کی نماز جنازہ کا شرف بھی تاج العلما کو ہی حاصل ہوا… !!
یہ سارے مقام اور اتنی عظمتیں صرف ادب اور خدمت استاذ کی وجہ سے حاصل ہوئیں…
تاج العلما درس گاہ میں فرماتے تھے:
“میں جوتیوں میں بیٹھنے کے لائق تھا مگر یہ حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ کی کفش برداری کا صدقہ ہے کہ میں آج اس مسند درس وتدریس اور رشدو ہدایت پر متمکن ہوں”
شاید ایسے ہی عشق کے لیے مولانا روم نے کہا تھا:
مردہ بدم زندہ شدم، گریہ بدم خندہ شدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم
“میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا، دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا۔”
ادب ہی انسان کو عزت وبزرگی دلاتا ہے…ادب ہی استاذ کا مقرب بناتا ہے…ادب ہی بارگاہ رسالت کا شیدا بناتا ہے…ادب ہی رب کی فرماں برداری سکھاتا ہے…
اے تاج العلما
تمہاری تربت پر صبح وشام رحمت خداوندی کی رمجھم گھٹائیں برسیں… تمہارے فیضان سے دنیا فیض یاب ہو… تم نے ادب اور استاذ کی محبت کا ایسا سبق پڑھایا ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ تمہیں یاد رکھیں گے !!
24 شعبان المعظم 1441ھ
19 اپریل 2020 بروز پیر