اۨقۡتُلُوۡا يُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡهُ اَرۡضًا يَّخۡلُ لَـكُمۡ وَجۡهُ اَبِيۡكُمۡ وَ تَكُوۡنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِهٖ قَوۡمًا صٰلِحِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 12 يوسف آیت نمبر 9
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اۨقۡتُلُوۡا يُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡهُ اَرۡضًا يَّخۡلُ لَـكُمۡ وَجۡهُ اَبِيۡكُمۡ وَ تَكُوۡنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِهٖ قَوۡمًا صٰلِحِيۡنَ ۞
ترجمہ:
یوسف کو قتل کردو یا اس کو کسی ملک میں چھوڑ آئو پھر تمہارے باپ کی توجہ صرف تمہاری طرف رہے گی اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجائو گے۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (بھائیوں نے کہا) یوسف کو قتل کردو یا اس کو کسی ملک میں چھوڑ آئو پھر تمہارے باپ کی توجہ صرف تمہاری طرف رہے گی اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہو جائو گے۔ (یوسف : ٩)
حضرت یوسف کے بھائیوں کا انہیں قتل کرنے یا شہر بدر کرنے کا منصوبہ بنانا
جب حضرت یوسف کے بھائیوں کا حسد انتہا کو پہنچ گیا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یوسف کو اس کے باپ سے الگ کرنا ضروری ہے اور اسکی دو صورتیں ہیں یا تو اس کو قتل کردیا جائے یا اس کو دور دراز کسی ملک میں چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ اس کا باپ اس سے ملاقات سے مایوس ہوجائے۔ انہوں یہ جو یہ مشرہ کیا تھا کسی حاسد کا شر اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا پھر انہوں نے اس شر کی یہ توجیہ کی کہ یوسف کی وجہ سے ہمارے باپ کی توجہ ہماری طرف نہیں ہوتی اور جب یوسف ان کے پاس نہیں رہے گا تو پھر وہ ہماری طرف توجہ، التفات اور محبت سے پیش آئیں گے انہوں نے کہا اس کے بعد تم لوگ صالحین ہو جائو گے۔ ان کے اس قول کے تین محمل ہیں :
(١) ان کو علم تھا کہ جو کچھ وہ کرنے جارہے ہیں وہ تمام کام گناہ کبیرہ ہیں انہوں نے کہا ہم یہ کام کرنے کے بعد اللہ تعالی سے توبہ کرلیں گے پھر ہم لوگ صالح ہوجاءیں گے ۔
(١)ان کی مراد دین کی صلاح نہیں تھی بلکہ ان کی مراد دنیا کی صلاح تھی یعنی اس منصوبہ پر عمل کرنے کے بعد ان کی اچھی حالت ہوجائے گی اور ان کا باپ ان سے محبت کرنے لگے گا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے لگے گا۔
(٣) ان کا مطلب یہ تھا کہ یوسف کے یہاں ہونے کی وجہ سے ہم ہر وقت غم اور غصہ میں مبتلا رہتے ہیں اور ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ س سے نجات کی کیا تدبیر ہوگی اور اس تشویش میں رہنے کی وجہ سے ہم اپنی اصلاح اور اپنی خوش حالی کے منصوبوں پر عمل نہیں کر پاتے اور جب یہ کانٹا نکل جائے گا تو ہم اطمینان سے اپنی مہمات میں مشغول ہوسکیں گے پھر اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا حکم کس نے دیا تھا۔
ایک قول یہ ہے کہ یہ حکم کسی اجنبی نے دیا تھا وہ ان کے بھائیوں میں سے نہیں تھا اور
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ حکم ان کے بھائیوں میں سے ہی کسی نے دیا تھا۔
وہب بن منبہ نے کہا : یہ حکم دینے والا شمعون تھا اور
مقاتل نے کہا : یہ حکم دینے والا روبیل تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی جو منصوبہ بنا رہے تھے اس سے وہ اپنے باپ کو ایذا پہنچا رہے تھے جو نبی معصوم تھے اور جھوٹ بولنے اور اپنے بےقصور چھوٹے بھائی کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور یہ تمام کام گناہ کبیرہ ہیں اور یہ اس کی واضح دلیل ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی نبی نہیں تھے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف آیت نمبر 9