أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ الۡمَلِكُ ائۡتُوۡنِىۡ بِهٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡهُ لِنَفۡسِىۡ‌ۚ‌ فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الۡيَوۡمَ لَدَيۡنَا مَكِيۡنٌ اَمِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

اور بادشاہ نے کہا اس کو میرے پاس لے کر آئو میں اس کو اپنے لیے مخصوص رکھوں گا پھر جب بادشاہ نے اس سے گفتگو کی تو کہا (اے یوسف ! ) آپ آج سے ہمارے نزدیک مقتدر اور امانت دار ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بادشاہ نے کہا اس کو میرے پاس لے کر آئو میں اس کو اپنے لیے مخصوص رکھوں گا پھر جب بادشاہ نے اس سے گفتگو کی تو کہا (اے یوسف ! ) آپ آج سے ہمارے نزدیک مقتدر اور امانت دار ہیں۔ (یوسف : ٥٤) 

بادشاہ کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس بلانا

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری نے لکھا ہے : بادشاہ سے مراد ہے مصر کا بادشاہ۔ امام ابن اسحاق نے کہا : وہ الولید بن الریان ہے۔ (جامع البیان جز ١٣، ص ٦، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ)

امام رازی نے کہا : اس میں اختلاف ہے کہ اس بادشاہ سے مراد کون ہے، بعض نے کہا اس سے مراد عزیز مصر ہے۔ یعنی بادشاہ کا وزیر اور بعض نے کہا اس سے مراد بادشاہ ہے یعنی الولید بن الریان۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ بادشاہ نے کہا میں اس کو اپنے لیے مخصوص رکھوں گا اور اس سے پہلے حضرت یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر کے لیے مخصوص تھے، اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں الملک سے مراد بادشاہ ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) جب قید میں تھے تو ان کے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہا : دعا کیجیے : اے اللہ ! میرے لیے کشادگی اور قید سے نکلنے کی راہ پیدا کر دے اور مجھے وہاں سے رزق عطا فرما جہاں سے مجھے گمان بھی نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کے لیے قید سے رہائی کا سبب پیدا فرما دیا، قرآن مجید میں ہے : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ۔ (الطلاق : ٣۔ ٢) اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اس کو وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے۔ جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ 

حضرت یوسف (علیہ السلام) سے بادشاہ کے متاثر ہونے کی وجوہات

بادشاہ جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بہت زیادہ معتقد ہوگیا تھا اور ان کو اپنے لیے مخصوص کرنا چاہتا تھا اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) بادشاہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے علم سے بہت متاثر ہوا تھا کیونکہ جب بادشاہ کے خواب کی تعبیر سے اس کے تمام ارکان دولت عاجز ہوگئے تھے اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) نے برجستہ اس خواب کی تعبیر بتائی اور اس کو جو پریشانی لاحق ہونے والی تھی اور اس قوم پر جو مصیبت آنے والی تھی اس کو دور کرنے کا طریقہ بھی بتادیا۔

(٢) وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے صبر اور ضبط سے بھی بہت متاثر ہوا کیونکہ جب اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا حکم بھیجا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس وقت تک قیدخانے سے نکلنے سے انکار کردیا جب تک کہ تمام الزاموں اور تہمتوں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت ظاہر نہ ہوجائے۔

(٣) وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ادب اور احترام اور ان کی پردہ پوشی کی صفت سے بھی بہت متاثر ہوا کیونکہ انہوں نے صرف یہ فرمایا کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ (یوسف : ٥٠) حالانکہ آپ کی غرض عزیز مصر کی بیوی کا حال معلوم کرنا تھا جس نے آپ پر تہمت لگائی تھی لیکن آپ نے اس کا پردہ رکھا اور باقی عورتوں کا ذکر کیا جب کہ باقی عورتوں سے بھی آپ کا واسطہ عزیز مصر کی بیوی کی وجہ سے ہی پڑا تھا اور آپ اسی کی تہمت اور الزام کی وجہ سے اس قید میں گرفتار ہوئے تھے اور یہ آپ کا نہایت درجہ کا ظرف اور حوصلہ تھا۔

(٤) وہ آپ کی پاکیزگی اور پارسائی اور آپ کے ٹھوس اور پختہ کردار کی وجہ سے بھی متاثر ہوا کیونکہ جو آپ پر تہمت لگانے والے تھے ان سب نے آپ کی ان تہمتوں سے برأت کا اعتراف اور اقرار کرلیا۔

(٥) آپ کے ساتھ قید میں جو ساقی رہا تھا اس نے آپ کی بہت تعریف کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ عبادت کرتے ہیں اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ بہت نیک سلوک کرتے ہیں بیماروں کی عیادت کرتے ہیں اور ہر کسی کے کام آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایسی وجوہ ہیں کہ ان میں سے ایک وجہ بھی کسی شخص میں پائی جائے تو اس شخص سے لوگ متاثر ہوں گے تو جس شخص میں یہ تمام وجوہات پائی جائیں تو لوگ اس سے کس قدر زیادہ متاثر ہوں گے اور کتنے زیادہ اس کے عقیدت مند ہوں گے۔ جب بادشاہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ان صفات اور ان کے ان شمائل اور خصائل پر مطلع ہوا تو وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رکھنے کا خواہش مند ہوا اور وہ اس پر راغب ہوا کہ ان کو اپنے لیے مخصوص کرلے۔ 

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا رہا ہو کر بادشاہ کے دربار میں جانا

حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس جب بادشاہ کا قاضد ان کو بلانے کے لیے پہنچا تو اس نے کہا : آپ نہا دھو کر، قید کے کپڑے اتار کر عمدہ لباس پہنیں اور میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قیدخانہ سے نکلنے سے پہلے قیدخانہ کے دروازہ پر لکھ دیا : ” یہ آزمائش اور امتحان کی جگہ، یہ زندہ لوگوں کا قبرستان ہے یہ دشمنوں کے ہنسنے کا موقع ہے اور سچوں کی تجربہ گاہ ہے۔ “ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے دربار میں پہنچے تو یہ دعا کی : اے اللہ ! میں اس کی خیر سے تیری خیر کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے تیری قدرت اور تیری عزت کی پناہ میں آتا ہوں اور جب اس کے پاس داخل ہوئے تو عبرانی زبان میں اس کے حق میں دعائیہ کلمات کہے۔ بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس لیے اپنے ساتھ مخصوص کرنا چاہا تھا کہ بادشاہوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو کسی عمدہ اور نفیس چیز کا پتا چلتا ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ وہ بلا شرکت غیرے اس چیز کے مالک ہوجائیں۔ جب بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے گفتگو کی تو کہا : میں اپنی اہلیہ اور طعام کے سوا تم کو اپنی ہر چیز میں شریک کرنا چاہتا ہوں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ میں تمہارے ساتھ کھانا کھائوں گا حالانکہ میں یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ (علیہم السلام) ہوں۔ جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے دربار میں پہنچے تھے اس وقت آپ کی عمر تیس سال تھی اور اس وقت آپ جوان رعنا تھے بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر ساقی سے کہا یہ وہ شخص ہے جس نے میرے خواب کی تعبیر بتائی تھی حالانکہ بڑے بڑے جادوگر اور کاہن اس کی تعبیر بتانے سے عاجز رہے تھے، پھر بادشاہ نے یہ فرمائش کی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس کے سامنے بالمشافہ خواب کی تعبیر بیان کریں پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تفصیل کے ساتھ پہلے اس کا دیکھا ہوا خواب بیان کیا پھر اس کی تعبیر بیان فرمائی۔ 

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بادشاہ کے سامنے خواب اور اس کی تعبیر بیان کرنا

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا : اے بادشاہ تم نے خواب میں دیکھا کہ سات بہت حسین و جمیل اور موٹی تازی گائیں ہیں جو بہت خوش نما اور بھلی معلوم ہوتی ہیں ان کے بچے ان کا دودھ پی رہے تھے وہ دریائے نیل سے نکل کر کنارے پر آئیں جس وقت آپ یہ حسین منظر دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، اچانک دریا کا پانی زمین میں دھنس گیا اور اس کی کیچڑ میں سے سات دبلی پتلی گائیں نمودار ہوئیں ان کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود تھے ان کے پیٹ سکڑے ہوئے تھے ان کے ساتھ ان کے دودھ پینے والے بچے نہ تھے۔ ان کے لمبے لمبے دانت اور داڑھیں تھیں۔ کتے کی طرح ان کے پنجے تھے اور درندوں کی طرح ان کی سونڈ تھی وہ ان فربہ گایوں پر حملہ آور ہوئیں اور دیکھتے دیکھتے انہوں نے درندوں کی طرح ان کو چیر پھاڑ ڈالا اور ان کا گوشت کھا گئیں اور ان کی کھال کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور ان کی ہڈیوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ آپ یہ منظر دیکھ کر اس پر تعجب کر رہے تھے کہ یہ دبلی پتلی گائیں کس طرح ان فربہ گایوں پر غالب آگئیں اور ان گایوں کو کھانے کے باوجود ان دبلی گایوں کی جسامت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا پھر اچانک آپ نے سات تروتازہ اور سرسبز خوشے دیکھے جو دانوں اور پانی سے بھرے ہوئے تھے اور اسی کھیت میں دوسری جانب سات خشک خوشے تھے وہ نہ سرسبز تھے نہ ان میں دانہ اور پانی تھا ان کی جڑیں کیچڑ اور پانی میں تھیں۔ جس وقت آپ دل میں یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کیسا منظر ہے ایک طرف یہ سرسبز اور پھل دار خوشے ہیں اور دوسری طرف یہ سیاہ اور خشک خوشے ہیں اور دونوں ایک ہی کھیت میں ہیں اور ان کی جڑیں پانی میں ہیں جب تیز ہوا چلتی تو سیاہ اور خشک پودوں کے پتے اڑ کر سرسبز پودوں پر جا کر گرجاتے تو پھر ان میں آگ لگ جاتی اور وہ جل کر سیاہ ہوجاتے پھر اے بادشاہ ! آپ خوفزدگی کے عالم میں بیدار ہوگئے۔ پھر بادشاہ نے کہا : اللہ کی قسم یہ بہت عجیب و غریب خواب تھا اور جس طرح آپ نے اس کی منظر کشی کی ہے وہ بہت ہی دل فریب ہے تو اے صدیق آپ کے نزدیک اس خواب کی کیا تعبیر ہے ؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا : میری رائے یہ ہے کہ خوش حالی کے ان سرسبز سالوں میں آپ غلے کو جمع کرلیں اور ان سالوں میں زیادہ سے زیادہ گندم کاشت کریں کیونکہ ان سالوں میں اگر آپ نے پتھر اور بجری میں بھی گندم بوئی تو اس سے بھی گندم اگ آئے گی اور اللہ تعالیٰ میں بہت روئیدگی اور برکت فرمائے گا اپھر آپ گندم کو ان کے خوشوں میں رہنے دیں اور ان کو گوداموں میں ذخیرہ کرائیں پس اس گندم کا بھوسا جانوروں کے چارے میں استعمال ہوگا اور گندم لوگوں کی خوراک بنے گی پھر جس گندم کا آپ ذخیرہ کریں گے وہ مصر اور اس کے مضافات کے لیے کافی ہوگی اور دور دراز سے سفر کر کے لوگ آپ کے پاس گندم لینے کے لیے آئیں گے اور اس کو فروکت کرنے سے آپ کے پاس مال و زر کا اتنا بڑا خزانہ جمع ہوجائے گا جو آپ سے پہلے کسی کے پاس نہیں تھا پھر بادشاہ نے کہا کہ میرے اس کام کی نگرانی اور اس کا انتظام کون کرے گا ؟ اگر میں شہر کے تمام لوگوں کو بھی اکٹھا کرلوں تو وہ اس کام کو خوش اسلوبی سے نہیں کرسکیں گے اور ان سے ایمانداری اور دیانت داری کی بھی توقع نہیں ہے۔ تب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا : آپ مجھے اپنے ملک کے خزانوں کا امیر مقرر کریں۔ 

بادشاہ کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو صاحب اقتدار اور امانت دار قرار دینا

جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کو خواب کی تعبیر اور قحط کے مشکل حالات کو حل بتایا تو بادشاہ نے کہا (اے یوسف ! ) آپ آج سے ہمارے نزدیک مقتدر اور امانت دار ہیں اور یہ ایک جامع کلمہ ہے جو تمام فضائل اور مناقب کو شامل ہے کیونکہ مکین وہ شخص ہوسکتا ہے جس کے پاس قدرت اور علم ہو کیونکہ قدرت سے وہ حسب منشاء تصرف کرسکے گا اور علم کے ذیرعہ ہی اس کو معلوم ہوگا کہ کون سا کام کرنا چاہیے اور کون سا کام نہیں کرنا چاہیے اور جو شخص امانت دار ہوگا وہ اسی کام کو کرے گا جس کا کرنا حکمت اور مصلحت کے مطابق ہوگا نہ کہ وہ کام جو صرف اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہو خواہ اس میں کوئی حکمت اور مصلحت ہو یا نہ ہو خلاصہ یہ ہے کہ بادشاہ نے کہا آپ ہمارے نزدیک ایسے شخص ہیں جو ہماری ملک میں اپنے علم اور قدرت سے حکمت اور مصلحت کے مطابق تصرف کریں۔ (تفسیر کبیر ج ٦، ص ٤٧٢۔ ٤٧٠، الجامع لاحکام القرآن جز ٩، ص ١٨٥۔ ١٨٤، روح المعانی جز ١٣، ص ٩۔ ٨)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر12 يوسف آیت نمبر 54