أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ قُلِ اللّٰهُ‌ؕ قُلۡ اَفَاتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لِاَنۡفُسِهِمۡ نَفۡعًا وَّلَا ضَرًّا‌ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ۙ اَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنُّوۡرُ ۚ اَمۡ جَعَلُوۡا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوۡا كَخَلۡقِهٖ فَتَشَابَهَ الۡخَـلۡقُ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِـقُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّهُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‏ ۞

ترجمہ:

آپ (ان سے) پوچھیے آسمانوں اور زمینوں کا رب کون ہے ؟ آپ کہیے اللہ، آپ کہیے کیا تم نے اللہ کے سوا ایسے مددگار بنا لیے ہیں جو خود اپنے لیے (بھی) کسی نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ کسی ضرر کے، آپ کہیے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں یا اندھیرا اور روشنی برابر ہیں ؟ یا انہوں نے اللہ کے سوا ایسے شریک قرار دے لیے ہیں جنہوں نے اللہ کی کوئی مخلوق پیدا کی ہے تو صفت خلق ان پر مشتبہ ہوگئی ؟ آپ کہیے اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ایک ہے سب پر غالب ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ (ان سے) پوچھیئے آسمانوں اور زمینوں کا رب کون ہے ؟ آپ کہئے اللہ ! آپ کہئے کیا تم نے اللہ کے سوا ایسے مددگار بنا لیے ہیں جو خود اپنے لیے (بھی) کسی نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ کسی ضرر کے، آپ کہے اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں یا اندھیرا اور روشنی برابر ہیں ؟ یا انہوں نے اللہ کو سوا ایسے شریک قرار دے لیے ہیں، جنہوں نے اللہ کی طرح کوئی مخلوق پیدا کی ہے تو صفت خلق ان پر مشتبہ ہوگئی ؟ آپ کہیے اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ یک ہے سب پر غالب ہے۔ (الرعد : 16) 

دلائل کے ساتھ بت پرستوں کا رد اور ابطال : 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : آسمانوں اور زمینوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہے یعنی ہر چیز خوشی یا نا خوشی سے اس کے احکام کی اطاعت کر رہی ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ دبارہ بت پرستوں کے رد کی طرف متوجہ ہوا، اور فرمایا آپ اب سے پوچھئے کہ آسمانوں ا اور زمینوں کا رب کون ہے ؟ پھر خودہی کہئے اللہ ہی آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے چونکہ کفار اس بات کا انکار نہیں کرتے تھے اور مانتے تھے کہ آسمانوں اور زمینوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور وہی ان کا رب ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان سے کہے کہ جب تم مانتے ہو کہ آسمانوں اور زمنیوں کا رب اللہ ہے تو پھر تم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھروں کے بتوں کو اپنا مددگار کیوں بنا رکھا ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ خود اپنی ذات سے کسی ضرر اور نقصان کو دور کرسکتے ہیں اور اپنے لیے کسی نفع اور ضرر کے مالک نہ ہوں وہ تم کو کب کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں، یا تم سے کس طرح کوئی ضرر دور کرسکتے ہیں لہذا ان کی عبادت کرنا محض عبث اور بےفائدہ ہے اور جہالت کے سواکچھ نہیں پھر فرمایا کہ یہ دلیل تو بالکل واضع ہے اور جو شخص اس قدر واضع دلیل سے بھی جاہل ہو وہ اندھے شخص کی طرح ہے اور اس لیل کو جاننے والا بینا شخص کی طرح ہے یا اس دلیل سے جاہل اندھیرے کی طرح ہے اور اس دلیل کا جاننے والا روشنی کی طرح ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ نابینا، بینا کے برابر نہیں ہے اور اندھیرا روشنی کے برابر نہیں ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور طرز سے بت پرستوں کا رد فرمایا کہ یہ مشرکین جو ان بتوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں تو کیا ان کے علم میں یہ کیا چیز ہے کہ بتوں نے بھی کوئی مخلوق پیدا کی ہے، جس وجہ سے ان کو یہ اشتباہ ہوگیا کہ جب بت بھی خالق ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی خالق ہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خالق ہونے کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے تو بت بھی اس وجہ سے عبادت کے مستحق ہیں تو وہ بتائیں کہ ان بتوں نے کس چیز کو پیدا کیا ہے ؟ اور ظاہر ہے بتوں نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ خود ان بتوں کو مشرکوں نے بنایا ہے سو آپ کہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے، ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے وہی ایک ہے اور وہ سب پر غالب ہے۔ 

افعال انسان کے مخلوق ہونے کے متعلق اہلسنت اور معتزلہ کے نظریات :

اہلسنت اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ انسان کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اس کے بر خلاف معتزلہ یہ کہتے تھے کہ انسان خود اپنے افعال کا خالق ہے۔ معتزلہ یہ اس وجہ سے کہتے تھے کہ اگر انسان کے افعال کا خالق اللہ ہو تو برے کاموں پر سزا دینا اس کا ظلم ہوگا، کیونکہ برے کام بھی اسی نے پیدا کیے اور پھر سزا بھی وہ خود دے رہا ہے اور اچھے کاموں پر اجر وثواب دینا عبث ہوگا کیونکہ وہ نیک کام تو خود اللہ تعالیٰ نے پید کیے ہیں، انسان کا اس میں کیا کمال ہے، اس کو ثواب کس بات کامل رہا ہے ! اور اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث نہیں ہے اس لیے ما ننا پڑے گا کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے۔ اہلسنت یہ کہتے ہیں کہ ارادہ انسان کرتا ہے اور فعل کو اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اس ارادہ کو کسب کہتے ہیں اگر انسان نیک کام کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نیک فعل پیدا کردیتا ہے اور اگر وہ برے کام کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ برا فعل پیدا کردیتا ہے اور انسان کو اس کے ارادہ کے اعتبار سے جز اور سزا ملتی ہے، اگر یہ سوال کی ج آئے کہ پھر اس ارادہ کو کون پیدا کرتا ہے تو اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ بعض متکلمین نے یہ کہا کہ ارادہ بالذات موجود ہے نہ بالذات معدوم ہے اس کو حال کہتے ہیں اور خلق کا معنی ہے کسی چیز کا بالذات موجود کرنا لہذا ارادہ کو وجود میں لانا خلق نہیں ہے بلکہ یہ احدث ہے اور ارادہ کا محدث انسان ہے اور ان کا اس قاعدہ سے کوئی تعارض نہیں ہے کہ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اور بعض متکلمین نے یہ کہا کہ اللہ خالق کل شیء میں یہ کہ مخصوص عندالبعض ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ ارادہ کے ماسوا ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ارادہ کا خالق انسان ہے اور معتزلہ تمام افعال کا خالق انسان کو مانتے ہیں انسان کے افعال کے متعلق تیسرا مسلک جبریہ کا ہے اس کی تفصیل یہ ہے : 

افعال انسان کے مخلوق ہونے کے متعلق اہلسنت اور جبریہ کے نظریات :

جبریہ کا یہ نظریہ ہے کہ انسان کا اصلا کو فعل نہیں ہے اور اس کی حرکات بمنزلہ جمادات کی حرکات ہیں انسان کی کوئی قدرت ہے نہ اختیار اس کا قصد ہے نہ ارادہ، یہ نظریہ قطعا باطل ہے کیونکہ ہم رعشہ کے مریض اور صحت مند انسان کی حرکات میں بداہتا فرق کرتے ہیں صحت مند آدمی اپنے قصد اور اختیار سے حرکت کرتا ہے اور رعشہ کے مریض کی حرکت غیر اختیاری ہوتی ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر انسان مجبور ہوتا تو اس کو مکاف کرنا اور اس کے افعال پر جز اور سزاکا ترتب صحیح نہ ہوتا اور نہ حقیقتا یہ کہنا صحیح ہو تاکہ اس نے مثلا نماز پڑھی، روزہ رکھا، کھانا کھایا اور سفر کیا، اس کے بر خلاف جب ہم کہتے ہیں کہ لڑکا جوان ہوگیا، جوان بوڑھا ہوگیا فلاں بیمار ہوگیا، فلاں مرگیا تو ہم بد اہتا جانتے ہیں کہ پہلی قسم کے افعال اختیاری ہیں یعنی اس نے نماز پڑھی روزہ رکھا اور دوسری قسم کے افعال غیر اختیاری ہیں یعنی لڑکا جوان ہوگیا یا جوان بوڑھا ہوگیا، اور پہلی قسم کے افعال میں انسان مختار ہے اور دوسری قسم کے افعال میں انسان مجبور ہے نیز قرآن مجید کی متعدد آیات جبری کی نفی کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

جبریہ کے نظریہ کا رد :

فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( السجدہ : ١٧) ان کے لیے جو آنکھوں کی ٹھنڈک مخفی رکھی گئی ہے وہ کسی کو معلوم نہیں، یہ ان (نیک) کاموں کی جزا ہے جو وہ (دنیا میں) کرتے تھے۔ 

أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاحقاف :14) وہ لوگ جنتی ہیں اس میں ہمیشہ رہنے والے، یہ ان (نیک) کاموں کی جزا ہے جو وہ (دنیا میں) کرتے تھے۔

جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الواقعہ : 24) یہ ان (نیک کاموں کی جزا ہے جو وہ (دنیا میں) کرتے تھے۔ 

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ( التوبہ : ٩٥) یہ منافقین بیشک ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے یہ ان (برے) کاموں کی سزا ہے جو وہ (دنیا میں) کرتے تھے۔ 

فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الکھف :29) جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے۔ 

معتزلہ کے نظریہ کا رد : 

دسرا مذہب معتزلہ کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے افعال کا خالق ہے ورنہ رسولوں کو بھیجنا جز اور سزا اور جنت اور جہنم تمام امور کا عبث ہونا لازم آئے گا، یہ مذہب بھی باطل ہے۔ قرآن مجید میں ہے : 

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ( الصفت : ٩٦) تمہیں تمہارے اعمال کو اللہ نے پیدا فرمایا ہے۔ 

ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لا إِلَهَ إِلا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ (الانعام : 102) یہ ہے تمہارا پروردگار اس کے سوا کوئی معبود نہیں، (وہ) ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے سو اسی کی عبادت کرو۔

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ ( زمر : ٦٢) اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔

وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (التکویر : ٢٩) اور تم چاہ نہیں سکتے جب تک اللہ رب العا لمین نہ چاہے۔

نظریہ اہلسنت کی مزید وضاحت : 

اہلسنت و جماعت کا یہ نظریہ کہ انسان کے افعال کا خاقل اللہ تعالیٰ ہے اور کا سب خود انسان ہے انسان کسب کرتا ہے اور اللہ خلق کرتا ہے کلق کا معنی ہے کسی چیز کا عدم سے وجود میں لانہ اور کسب کی متعدد تفسیر کی گئی ہیں علامہ محب اللہ بہادری نے لکھا ہے کہ کسب قصد مصمم (پختہ ارادہ) کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ ہے کہ وہ قصد مصمم کے بعد فعل پیدا کردیتا ہے چونکہ انسان کے افعال کا اللہ خالق ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسولوں کو بھیجا جنہوں نے نیکی کرنے اور برائی سے پچنے کی تلقین کی اور اللہ تعالیٰ نے نیکی پر جز اء اور برائی پر سزا دینے کا نظام قائم کی اور جنت اور جہنم کی بنایا اس لیے یہ ضروری تھا کہ انسان کو بھیجنے کے لیے قصد اور اختیار کو تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر انسان کو نیکی اور بدی اور اچھائی اور برائی پر اختیار نہ ہو تو رسولوں کو بھیجنے اور جزا اور سزا کا کوئی معنی نہیں ہے۔ 

معتزلہ کے اعتراض کے جوابات :

علامہ سعدالدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی 791 ھ اس بحث میں لکھتے ہیں : 

بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے ارادہ اس کی مشیت اور اس کی قضاء سے وجود پزیر ہوتے ہیں اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر کفر اللہ تعالیٰ کی قضاء سے ہو تع پھر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر سے راضی ہوکیو ن کہ قضاء سے راضی ہونا واجب ہے اور کفر سے راضی ہونا خود کفر ہے اس جواب یہ ہے کہ کفر مقضی ہے قضا نہیں ہے اور رضا صرف قضاء سے واجب ہے کہ نہ مقضی سے اور قضاء اور تقدیر کا معنی ہے کہ بندہ کا جو حسن، قبح، نفع اور ضرور جود میں آئے اور اس کو جو زمان کو مکان شامل ہو اور اس بندہ پر جو ثواب اور عذاب مترتب ہو اس کی تحدید اور حد بندی کرنا اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت کا عموم اور شمول بیان کرنا ہے۔

اس پر یہ اعتراض کی جاتا ہے کہ پھر کافر اپنے کفر میں مجبور ہوگا اور فاسق اپنے فسق میں مجبور ہوگا لہذا ان کو ایمان اور اطاعت کے ساتھ مکاف کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اختیار سے ان کے کفر اور فسق کا ارادہ کہا ہے جیسا کہ اس کو یہ علم ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کفر اور فسق کریں گے یعنی انہوں نے کفر اور فسق کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ اور قدرت سے اسی کو پیدا کردیا لہذا محال کے ساتھ مکاف کرنا لازم نہ آیا۔ 

اور معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شر اور قبیح کا ارادہ نہیں کرتا، حتی کہ اللہ تعالیٰ یہ ارادہ کرتا ہے کہ کافر ایمان لے آئے اور فاسق اطاعت کرے وہ کافر سے کفر اور فاسق سے معصیت کا ارادہ نہیں کرتا کیونکہ ان کا زعم یہ ہے کہ قبیح کا ارادہ بھی قبیح ہوتا ہے اسی طرح قبیح کو خلق کرنا بھی قبیح ہے اور ہم کہتے ہیں کہ اس طرح نہیں ہے بلکہ قبیح کا کسب کرنا اور قبیح سے متصف ہونا قبیح ہے ان کے نزدیک بندوں کے اکثرافعال اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے خلاف ہوتے ہیں کو ن کہ بندوں کے اکثر افعال کفر اور فسق ہیں اور ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے خلاف ہوتے ہیں کیونکہ بندوں کے اکثر افعال کفر اور فسق ہیں اور ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ ان کا ارادہ نہیں کرتا اور یہ بہت زیادہ لائق مذمت ہے۔ 

حکایت ہے کہ عمر وبن عبید معتزلی نے کہا ایک مجو سی نے جس طرح مجھ پر الزام قائم نہیں کیا وہ میرے ساتھ ایک کشتی میں سفر کر رہا تھا میں نے اس سے پس پوچھا تم نے اسلام کیوں نہیں قبول کرتے ؟ اس نے کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے اسلام لانے کا ارادہ نہیں کیا جب وہ میرے اسلام لانے کا ارادہ کر گا تو میں اسلام لے آؤں گا میں نے اسی مجوسی سے کہا اللہ تمہارے اسلام لانے کا ارادہ کرتا ہے لیکن شیاطین تم کو نہیں چھو ڑتے۔ اس نے کہا پھر میں اس پر ایمان لاؤں گا جو ان میں زیادہ غالب ہے۔ 

اور حکایت ہے کہ معتزلا شیخ عبدالجبار الہمدانی، اصاحب ابن عباد کے پاس گیا اور ان کے پاس اہلسنت کے شیخ استادابو اسحاق الا سفراءنی بیٹھے ہوے تھے جب شیخ معتزلا نے استاد کو دیکھا تو کہا سبحان ہے وہ جو برے کاموں سے منزہ ہے۔ استاد نے فورا کہا سبحان وہ جس کے ملک میں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے (یعنی ایسا نہیں ہو تاکہ وہ تو بندہ کا ایمان چاہے اور وہ کفر کرے یا وہ بندہ کی اطا عت چاہے اور وہ معصیت کرے) ہمارا استدلال ان آیت سے ہیں : 

مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ( الانعام : ١١١) اللہ کے چاہے بغیر ایمان لانا ممکن نہیں۔ 

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ (الانعام : 125) پس اللہ جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور وہ جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ خوب رکا ہوا تنگ کردیتا ہے گو یا وہ تکلف اور مشقت کے ساتھ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ 

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى ( الا نعام : ٣٥) اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ ایمان وہی لائیں گے جب کے ایمان کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرم آئے گا اور کفر وہی کریں گے جن کے کفر کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرم آئے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے کفر کا اس لیے ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کفر کو اختیار کرتے ہیں اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر ظلم نہیں ہے۔ 

معتزلہ اس قسم کی آیت سے استدالال کرتے ہیں : 

وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ ( المومن : ٣١) اور اللہ بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں فرماتا۔ 

معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ خود کفر اور معصیت کو پیدا کرے اور پھر بندوں کو اس وجہ سے عذاب دے تو یہ بندوں پر ظلم ہوگا اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا اس لیے ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کفر اور معصیت کو پیدا نہیں کرتا بلکہ خود بندے کفر اور معصیت کو پیدا کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب بندہ کفر یا معصیت کی وجہ سے اللہ اس کو عذاب دیتا ہے لہذا یہ اللہ تعالیٰ کا ظلم نہیں ہے۔ 

جبریہ کے رد پر مزید دلائل :

علامہ تفتازانی لکھتے ہیں : بندوں کے افعال اختیاری ہیں جو اگر اطاعت ہوں تو ان کو ثواب دیا جائے گا اور اگر وہ معصیت ہوں تو وہ عذاب کے مستحق ہیں، اور جبریہ کا یہ قول درست نہیں ہے کہ بندہ کا مالکل فعل نہیں ہوتا، اور اس کی حرکات جمادات کی حرکات کی طرح ہیں اور بندہ کا کوئی قصد نہیں ہے اور ان کہ کا یہ قول بالکل باطل ہے کیونکہ ہم بد اہتا جانتے ہیں کہ کسی چیز کو پکڑے کی حرکت میں اور رعشہ کی حرکت میں فرق ہے، اور اول الذکر حرکت اختیاری ہے اور ثانی الذکر حرکت اضطراری ہے ` اس لیے بھی کہ اگر بندہ کا بالکل فعل نہ ہو تو اس کو مکاف کرنا اصلا صحیح نہیں ہوگا اور اس افعال پر ثواب اور عتاب کا ترتب بھی صحیح نہیں ہوگا اور نہ اس کی طرف افعال کی حقیقتا نسبت کرنا صحیح ہوگا مثلا فلاں شخص نے نماز پڑھی، اس نے روزہ رکھا، اس نے لکھا، اس کے بر خلاف لڑکا درازقد ہوگیا، اس کا رنگ سیاہ ہوگیا، ہم جانتے ہیں کہ اول الذکر نسبت میں اس کا اختیار ہے اور ثانی الذکر نسبت میں اس کا اختیار نہیں ہے۔ اور نصوص قطعیہ ان کے عقیدہ کا رد کرتی ہیں مثلا :

فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الکھف : 29) سو جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے وہ کفر کرے۔

خلق اور کسب کی وضاحت : 

اور دلائل سے یہ ثا بت ہے کہ خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ہم یہ بھی بداہتا جانتے ہیں کہ بعض افعال میں بندے کی قدرت اور اختیار کا دخل ہوتا ہے جیسے کسی چیز کو پکڑنے کی حرکت اور بعض افعال میں اس کا بالکل دخل نہیں ہاتا جیسے رعشہ والے کی حرکت تو اس میں تطبیق دینے کے لیے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور بندہ کا سب ہے اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ کسی فعل کی طرف بندہ کا اپنی قدرت اور ارادہ کو خرچ کرنا کسب ہے اور اس فعل کو بندہ کے ارادہ کے بعد موجود کرنا خلق ہے اور ایک مقدوردو قدرتوں کے تحت داخل ہے لیکن دو مختلف جہتوں سے پس جہت ایجاد سے فعل اللہ تعالیٰ کا مقدور ہے اور جہت کسب سے فعل بندہ کا مقدور ہے اور اس کی تو جیہ میں اس سے زیادہ کوئی بات ہیں کہہ سکتے۔ 

علماء نے کسب اور خلق میں کئی وجوہ سے فرق کیا ہے۔ وہ کہتے ہی کہ کسب آلہ سے واقع ہوتا ہے اور خلق بغیر آلہ کے واقع ہوتا ہے اور کسب مقدور ہے جو سب کے محل قدرت میں واقع نہیں ہوتا، صرف کا سب کی قدرت سے فعل واقع نہیں ہوتا اور صرف خالق کی قدرت سے فعل واقع ہوجاتا ہے اور ایک چیز کی دو چیزوں کی طرف دو مختلف جہتوں سے نسبت ہوسکتی ہے جیسے زمین کا اللہ تعالیٰ اس جہت سے مالک ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا ہے اور بندہ اس کا اس جہت سے مالک ہے کہ اس نے اس کو خریدا یا وہ اس کو وراثت میں ملی ہے یا کسی نے اس کو وہ زمین ہبہ کی اور اس وجہ سے اس کا اس میں تصرف کرنا صحیح ہے، اسی طرح فعل اللہ کی طرف خلق کی جہت سے منسوب ہے اور بندہ کی طرف کسب کی جہت سے منسوب ہے۔

اگریہ اعترض کیا ج آئے کسی قبیح کام کا کسب کرنا قبیح ہوتا ہے اور وہ مذمت کا مستحق ہوتا ہے تو پھر قبیح کام کو خلق کرنا قبیح کیوں نہیں ہوتا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات دلائل سے ثابت ہے کہ حکیم ہے وہ اسی چیز کو پیدا کرتا ہے جس کا انجام نیک اور مستحسن ہوتا ہے خواہ ہم اس کے محاسن پر مطلع نہ ہو سکیں لہذا ہم کو یقین ہے کہ جن کاموں کو ہم براسمجھتے ہیں ان میں حکمتیں اور مصلحتیں ہوتی ہیں جیسا کہ مضر، درد آور خبیث اجسام کو پیدا کرنا، اس کے بر خلاف کا سب کبھی اچھا کام کرتا ہے اور کبھی براکام کراتا ہے لہذا جب وہ براکام کرے گا جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہوچکی ہو تو اس کا وہ مذمت اور عذان کا مستحق ہوگا۔ (شرح عقاء د ضفی ص 26 ۔ 27، ملخصاومو ضحا مطبو عہ کراچی)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 16