أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَهٗ دَعۡوَةُ الۡحَـقِّ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ لَا يَسۡتَجِيۡبُوۡنَ لَهُمۡ بِشَىۡءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيۡهِ اِلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِـغِهٖ‌ؕ وَمَا دُعَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ‏ ۞

ترجمہ:

(بطور حقیقی حاجت روا کے) اسی کو پکارنا حق ہے اور جو لوگ کسی اور کو (حقیقی حاجت روا سمجھ کر) پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، ان کا پکارنا صرف اس شخص کی طرح ہے جو (دور سے) پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھاے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جاے حالانکہ وہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی پکار صرف گمراہی میں ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ( بطور حقیقی حاجت ورا کے) اسی کے پکارنا حق ہے، اور جو لوگ کسی اور کو (حقیقی حاجت ورا سمجھ کر) پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، ان کا پکارنا اس شخص کی طرح ہے، جو (دور سے) پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی پکار صرف گمراہی میں ہے۔ (الرعد :14) 

پانی کے ساتھ غیر اللہ کی تمثیل کے محامل : 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کو پکارنے والوں کی مثال اس شخص سے دی ہے جو پانی کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے حالانکہ پانی اس تک نہ پہنچ سکے۔ مفسرین نے اس تمثیل کے حسب ذیل محمل بیان کیے ہیں 

(1) مجاہد نے بیان کیا : جو شخص پانی سے دور کھڑا ہو اور اپنے منہ سے پانی پر قادر نہ ہو وہ اپنے ہاتھوں سے پانی کی طرف اشارہ کرے تاکہ پانی اس تک پہنچ ج آئے تو ظاہر ہے کہ پانی از خود اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ 

(2) حضرت ابن عباس رضی للہ عنہما نے فرمایا ایک پیا سا شخص اپنے ذہن میں پانی کا تصور کرے، پھر خارج میں اپنے ہاتھ پھیلائے تاکہ پانی کو اپنے منہ تک پہنچ آئے تو ظاہر ہے کہ وہ اس طرح پانی کو اپنے منہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ 

(3) فراء نے کہا پانی سے مراد اس آیت میں کنوں ہے اب اگر کوئی شخص بغیر رسی اور ڈول کے اپنے ہاتھ کنویں کی طرف پھیلائے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے تو ظاہر ہے اس طرح پانی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ (الجامع لا حکام القرآن جز 9 ص 262، مطبو عہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ) 

اس تمثیل کی وجہ یہ ہے کہ پانی میں سننے، دیکھنے، جاننے اور کسہ کی فریاد تک پہنچنے کی طاقت نہیں ہے، پانی پیاسے کو دیکھ سکتا ہے نہ اس کی فریاد کو سن سکتا ہے نہ از خود پیاسے کے منہ تک پہنچ سکتا ہے، اس طرح بت کسی کو دیکھ سکتے ہیں نہ کسی کی فر یاد سن سکتے ہیں نہ کسی کی فرایاد پر پہنچ سکتے ہیں سو جس طرح پانی کسی پیاسے کی پکار نہیں پہنچ سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کافر جن بتوں کو پکار تے ہیں وہ ان کی فریاد رسی نہیں کرسکتے، پھر یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پانی کے ساتھ پیاسے کے اس عمل کو تو کفات اور مشرکین بھی خلاف عقل گردانتے ہیں تو پھر اپنے ہاتھوں سے بنا ہوا ان بےجان بتوں کو جو یہ اپنی حاجت میں پکار تے ہیں اور ان سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس کو یہ خلاف عقل کیوں نہیں قرار دیتے۔ 

غیراللہ کو حقیقی حاجت روا مان کر پکارنا شرک ہے ورنہ نہیں : 

ہم اس آیت کے ترجمہ میں قوسین میں بطور حقیقی حاجت روا کی قید لگائی ہے جس کا مفادیہ ہے کہ غیر اللہ کو حقیقی حاجت روا سمجھ کر پکار نا باطل اور شرک ہے اور اگر ان کو یہ سمجھ کر پکا رہ ج آئے کہ وہ غیر مستقل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو یہ جاء ز ہے اور باطل اور شرک نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے : 

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت بن عباس (رض) فرمایا کراما کا تبین کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گر نے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں، جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل آئے تو وہ اس طرح پکا رے : اے اللہ کے بندو ! تم پر اللہ رحم فرم آئے میر مدد کرو۔ (المصنف ج 10 ص 390، مطبو عہ ادارات لقرآن کراچی، 1406 ھ) 

مشہور غیرمقلد عالم شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی متو فی 1250 ھ لکھتے ہیں : 

اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد کرنے پر دلیل ہے جو نظر نہ آتے ہوں جیسے فرشتے اور صالح جن اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ جب سواری کا پاؤں پھسل جاے یا وہ بھاگ جائے تو انسانوں سے مدد حاصل کرنا جائز ہے۔ (تحفتہ الذاکرین ص 202، مطبو عہ دارلکتب العلمیہ بیروت 1408 ھ) 

دیوبند کے مشہور عالم شیخ رشید احمد گنگو ہی متوفی 1323 ھ لکھتے ہیں : 

یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو علم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں مثلا یہ جانے کہ حق تعالیٰ ان کو مطلع فرمادیوے گا، یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجاوے گا یاباذنہ تعالیٰ ملاء کہ پہنچادیویں گے جیسا کہ درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسروحرمان میں ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بو لتے ہیں لیکن ہرگز مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ پس ان یہ اقسام سے کلمات مناجات و اشعار بزگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذا تہ شرک ہیں نہ معصیت۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص 68، محمد بن سعید اینڈ سنز کراچی) 

شیخ محمودالحسن دیوبندی متوفی 133 ھ ایاک نستعین کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

اس آیت شر یفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد ما نگنی بالکل ناجائز ہے ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ سے ہی استعانت ہے۔ 

افضل اور اولی یہ ہے کہ صرف اللہ سے مدد طلب کی جائے :

ہر چند کہ اس عقیدہ کے ساتھ انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے مدد منگنا اور ان کو پکار نا جاء ز ہے کہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے سننے ہیں اور اس کے اذن سے مدد کرتے ہیں اور یہ ان تصریحات کی بناء پر شرک نہیں ہے، لیکن افضل اور اولی یہی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سو سوال کی ج آئے اور اسی سے مدد طلب کی جائے بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عباس (رض) کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : 

اذا سئلت فا سئل اللہ واذا استعنت جب تم سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور جب تم مدد طلب کرو۔ (سنن الترمذی رقمالحدیث : 2516، مسند احمد المعجم الکبیر رقم الحدیث : 12988 عمل الیوم واللیلتہ رقم الحدیث :425، شعب الایمان رقم الحدیث رقم الحدیث : 174 کتاب الضعفاء للعقیلی ج 3، ص 53، تنزیمہ الشریعہ جری رقم الحدیث :198، المستدرک ج 3 ص 541، حلیتہ الاولیاء ج 1 ص 314، کتاب لآداب للبیہق رقم الحدیث :1073) 

علاوہ ازیں انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کے اذن سے مدد کرتے ہیں اور ہمارے پاس جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہماری مدد کا اذن دیا ہے یا نہیں تو پھر افضل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کی جائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 14