أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِمۡ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً وَّيَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۤئِكَ لَهُمۡ عُقۡبَى الدَّارِۙ‏ ۞

ترجمہ:

اور جو اپنے رب کی رضا کی طلب میں‏ صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے دور کرتے ہیں ان ہی کے لیے آخرت کا (اچھا) گھر ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو کو دیا ہے اس میں پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو اچھائی سے دور کرتے ہیں ان ہی کے لیے آخرت اچھا گھر ہے۔ (الرعد : 22) 

صبر کی اقسام :

صبر کرنے کئی محمل ہیں، ایک یہ ہے کہ انسان عبادات کی مشقت پر صبر کرے اور بیمار، تکلیف غم پریشانی کے باوجود عبادات کے بجالانے میں کوئی تقصیر اور کوتاہی نہ کرے اور صبر کی اس گھا ٹی کے امام حضرت ایوب (علیہ السلام) ہیں، اور صبر کی دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی تقصیر اور کوتاہی نہ کرے اور صبر کرے اور اپنے نفس کو گنا ہوں سے آلودہ نہ ہونے دے اور صبر کی اس وادی کے امام حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں اور صبر کی تیسری قسم ہے قدرتی آفات مصائب اور نقصانات پر صبر کرنا اور صبر اس میدان کے امام حضرت سید نا ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔

صبر کی وجوہ اور جس وجہ سے صبر اللہ کے لیے ہو :

نقصانات اور مصائب پر صبر کرنا کئی وجوہ سے ہوتا ہے ایک اس لیے کہ لوگ اس کی تحسین کریں اور یہ کہیں کہ اس قراری، شکوہ شکایت اور آہوبکاہ سے کام لیا تو لوگ اس کی مذمت کریں گے اور اس کی عیب جوئی کریں گے تیسرا اس لیے کہ اگر اس نے اپنے رنج اور غم کا اظہار کیا تو اس کے دشمن خوش ہوں گے چو تھے اس وجہ سے کہ اس کو یہ علم ہے کہ اگر اس نے اظہار عم کی اور اہ بکا کی تو اس کا کیا فائدہ ہے۔ جانے والی چیز تو جا چکی اس کے غم کرنے سے واپس تو نہیں آسکتی ان چار وجہوں میں سے انسان نے کسی ایک وجہ سے بھی صبر کیا تو یہ اس کا کمال نہیں ہے اور نہ باعث اجر وثواب ہے، کمال اور اجر وثواب اس میں ہے کہ جب کوئی آفت اور مصیبت آئے یا کوئی نقصا ہو تو وہ اس پر اس لیے صبر کرے کہ اس کی تقدیر میں اسی طرح ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ اس پر راضی ہے۔ اگر مال کا نقصان ہوا ہے تو مال اسی کا دیا ہوا تھا، اگر اولاد کا انتقال ہوا ہے تو اولاد اسی کی دی ہوئی تھی حتی کہ اس کی جان بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے وہ بھی ایک دن چلی ج آئے گی۔ ہر چیز کا اللہ تعالیٰ مالک ہے وہ جب چاہتا ہے کوئی چیز دیتا ہے اور جب چاہتا ہے وہ چیز لے لیتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کی نظر مصیبت پر نہ بلکہ مصیبت کے نازل کرنے والے پر ہو اور وہ اس کے مشاہدہ میں مستعرق ہو اور جانے والی چیز پر غم نہ کرے خلاصہ یہ ہے کہ وہ اس لیے صبر کرے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی اور شاکر ہو یا اس لیے صبر کرے کہ اللہ مالک ہے وہ اپنی ملکیت میں جو چاہے کرے، کسی کو اعتراض کی کیا مجال ہے یا اس وجہ سے صبر کرے کہ اس کی نظر مصیبت پر نہیں ہے بلکہ مصیبت کے نازل کرنے والے پر ہے تو یہ وہ صبر ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ہے اور طلب ثواب کے لیے ہے۔

زکواۃ کو ظاہر اور پوشیدہ دینے کے محامل : 

نیز فرمایا وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال سے ظاہر اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں ظاہرا خرچ کرنے سے مراد ہے زکواۃ ادا کرنا اور پوشیدہ خرچ کرنے سے مراد ہے نفلی صد قات میں خرچ کرنا۔ زکواۃ میں بھی افضل یہ ہے کہ پوشیدہ طو پر دی جائے تاکہ زکواۃ لینے والے کو عار محسو نہ ہو اور دینے والے کا اخلاص بھی قائم رہے تاہم اگر یہ خطرہ ہو کہ اس پر زکواہ نہ دینے کی تہمت ہوگی تو ظاہرا دا کرے یا جو زکواۃ اموال ظاہرہ پر ہے جو امام یا اس کے عاملین کو دی جاتی ہے وہ ظاہرا دے اور جو زکواۃ اموال باطنہ پر ہے وہ خود ادا کرتا ہے وہ پو شیدہ طور پر دے۔ 

برائی کو اچھائی سے دور کرنے کے محامل : 

اور اس آیت میں فرمایا ہے اور وہ برائی کو اچھائی سے دار کرتے ہیں یعنی جب وہ اغواء شیطان اور شامت نفس سے کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں تو ان پر ندامت طاری ہوتی ہے اور وہ فو را توبہ کرتے ہیں اور اس برائی کے تدارک اور تلافی کے لیے کوئی نیکی کرتے ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے : 

حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور برائی کے بعد کوئی نیکی کرو جو اس برائی کو مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 1987، مسند احمد ج 5، ص 153 سنن الدارمی رقم الحدیث :2794، المستدرک ج 1، ص 54، حلیتہ الا ولیاء ج 4، ص 378) 

ابن زید نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شر کو خیر سے دور کرتے ہیں۔ سعید بن جبیر نے کہا وہ بدی کو نیکی سے دور کرتے ہیں۔ ضحاک نے کہا وہ بےحیایئ کی باتوں کو سلام کہہ کر دور کرتے ہیں، جو یبر نے کہا وہ ظلم کو عفو کے ساتھ دور کرتے ہیں ابن شجرہ نے کہا وہ گناہ کو توبہ کے ساتھ دور کرتے ہیں قتبی نے کہا وہ جہالت کو باتوں کو حلم اور حو صلہ کے ساتھ دور کرتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ جب وہ گناہ کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے رجوع کرکے استغفار کرتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ وہ شرک کو لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ساتھ دور کرتے ہیں۔ یہ آٹھ اقوال ہیں اور ان کے معنی متقارب ہیں، حسب ذیل آیتوں میں ان کی تائید ہے : 

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (١٣٥) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ( آل عمران : ١٣٦) اور جب وہ لوگ کوئی بےحیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں، اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخشتا ہے ! اور وہ عمدا اپنے کاموں پر اصرار نہ کریں۔ ان لوگوں کی جزاء ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں جن میں ہو ہمیشہ رہیں گے اور نیک کام کرنے والوں کا کیسا اچھا صلہ ہے !

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ( ھود : ١١٤) بیشک نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 22