وَيَسۡتَعۡجِلُوۡنَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبۡلَ الۡحَسَنَةِ وَقَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِمُ الۡمَثُلٰتُؕ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوۡ مَغۡفِرَةٍ لِّـلنَّاسِ عَلٰى ظُلۡمِهِمۡۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيۡدُ الۡعِقَابِ ۞- سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 6
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيَسۡتَعۡجِلُوۡنَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبۡلَ الۡحَسَنَةِ وَقَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِمُ الۡمَثُلٰتُؕ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوۡ مَغۡفِرَةٍ لِّـلنَّاسِ عَلٰى ظُلۡمِهِمۡۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيۡدُ الۡعِقَابِ ۞
ترجمہ:
اور یہ لوگ ثواب سے پہلے عذاب کے طلب گار ہیں اور بیشک ان سے پہلے عذاب یافتہ لوگ گزر چکے ہیں، اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم (گناہوں) کے باوجود ان کو بخشنے والا ہے، اور بیشک آپ کا رب ضرور سخت عذاب دینے والا ہے۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور یہ لوگ ثواب سے پہلے عذاب کے طلب گار ہیں اور بیشک ان سے پہلے عذاب یافتہ لوگ گزر ج کے ہیں اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم (گنا ہوں) کے باوجود ان کو بخشنے والا ہے اور آپ کا رب ضرور سخت عذاب دینے والا ہے۔ (الرعد : 6)
مشکل الفاظ کے معنی :
المشلات : یہ مثلتہ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے عبرت انگیز مثالیں، مثلتہ اس سزا کو کہتے ہیں جو دوسروں کو ارتکاب جرم سے باز رکھنے کے لیے مثال بن جاے سزا اور جرم میں مماثلت اور مشابہت کی وجہ سے بھی اس جرم کی سزا کو مثلتہ کہتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے :
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ( الشوری : ٤٠) برے کام کا بدلا اسی مثل برای ہے۔
فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ( البقرہ : ١٩٤) جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کیا ہے۔
کسی شخص کے اعضاء کا ٹنے اور کسی کے قتل کرنے کی سزا کو بھی اس لیے قصاص کہتے ہیں کہ اس نے جیسا جرم کی ہے اس کو اسی کی مثل سزا دی جاتی ہے کیونکہ قصاص کی معنی ہے بدلہ، قرآن مجید ہے :
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالأنْفَ بِالأنْفِ وَالأذُنَ بِالأذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ( الما ئد : ٤٥) اور ہم نے ان پر تو رات میں یہ فرض کیا تھا یہ جان کا بد لا جان ہے، اور آنکھ کا بد لا آنکھ ہے اور ناک کا بدلا ناک ہے اور کان کا بدلا کان ہے اور دنت کا بدلا دانت ہے اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے۔
مغفرت : غفر اور مغفر کا معنی ہے ستر اور پر دہ، مغفرت کی کئی صورتیں ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا میں عذاب نہ دے اور عذاب کو آخرت تک کے لیے موخر کردیے یا عذاب میں تخفیف کر دے یا ما لکلیہ عذاب کو ساقط کر دے۔
مع ظلمہم : یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے گنا ہوں کے باوجود ان کو عذاب نہیں دیتا، اور اگر اللہ تعالیٰ ہر گناہ پر عذاب دیتا روے زمین پر کوئی چلنے والا باقی نہ رہتا۔
کفار کا رحمت اور ثواب کے بجاے عتاب اور عذاب کو طلب کرنا :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو بھی آخرت اور قیامت کے عذب سے ڈراتے تھے اور ان کو دنیا کے عذب سے ڈراتے تھے۔ جب آپ ان کو قیامت اور آخرت کے عذاب سے ڈراتے تو وہ قیامت اور حشر ونشر کا اور مر کی دوبارہ اٹھنے کا انکار کردیتے، جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں گزر چکا ہے، اور جب آپ ان کو دنیا کے عذاب سے ڈراتے تو وہ آپ پر طنعہ زن ہوتے ہوے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو وہ عذاب لا کردکھائیں، جیسا کہ اس آیت میں ہے :
وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (٣٢) اور جب انہوں نے کہا اے اللہ اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر بر سادے یا ہم پر کوئی اوار) درد ناک عذاب لے آ۔ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں طعن کرتے ہوے اس طرح کہتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ فرماتے تھے کہ اگر وہ ایمان لے آے تو ان کو آخرت میں اجر وثواب ملے گا، اور دنیا میں ان کو اپنے دشمنوں کے خلاف فتح اور نصرت حاصل ہوگی، اور دنیا کی فتح و نصر کے بجاے دنیا کے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ ثواب سے پہلے عذاب کے طلب گار ہیں۔
عین حال معصیت میں اللہ تعالیٰ کا معاف فرمادینا :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم (گناہوں) کے باوجود ان کو بخشنے والا ہے اور بیشک آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت سے علماے اہلسنت نے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات گناہ کبیرہ کے مرتکب کو تو بہ سے پہلے یا بغیر توبہ کے بھی معاف کردیتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو گناہ کرتے وقت بھی معاف کردیتا ہے اور ظاہر ہے کہ بندہ گناہ کرتے وقت تو توبہ نہیں کر رہاہو تا، پھر اللہ تعالیٰ صرف اسی پر اقتصاد نہیں کی بلکہ کہ بھی فرمایا ہے بیشک آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا پہلا حصہ مومن مرتکب کبیرہ کے متعلق ہے اور دوسرا حصہ کافر کے متعلق ہے۔
امام ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ نے اپنی سند کے ساتھ علی بن زید سے روایت کیا ہے کہ مطرف نے اس آیت کی تلاوت کر کے کہا اگر لوگوں کو اللہ کی رحمت، اس کے عفو اور درگزر اور اس کی مغفرت کا اندازہ ہوتا تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث 12144)
امام ابن حاتم سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوی تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ودرگزرنہ ہوتا تو کوئی شخص خوشی سے زندہ نہ رہتا، اور اگر وہ اپنے عذاب سے نہ ڈراتا تو ہر شخص اس کی رحمت پر اعتماد کرلیتا (یعنی نیک عمل نہ کرتا اور برائیوں کو ترک نہ کرتا) ۔ تفسیر امام ابن ابی رقم الحدیث 12145)
اگر یہ اعتراض کی جاے کہ ہوسکتا ہے کہ مغفرت سے مراد دنیا میں عذاب کو موخر کرانا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں عذاب کو موخر کرنا تو کفار کو بھی حاصل ہے، اس کی مومنوں کے ساتھ تخصیص نہیں ہے، نیز تاخیر عذاب کو مغفرت نہیں کہا جاتا ورنہ لازم آے گا کہ کفار کی بھی مغفرت ہوتی ہے، دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ہوسکتا ہے اس آیت میں صغائر کی مغفرت مراد ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ظلم کے مقابلہ میں مغفرت کا ذکر فرمایا ہے اور ظلم گناہ صغیرہ کو نہیں گناہ کبیرہ کو کہتے ہیں۔ اس پر تیسرا اعتراض یہ ہوسکتا ہے اس آیت میں یہ مراد ہو کہ اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد گناہ کو معاف کرے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا ظاہری معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارتکاب ظلم کے وقت معاف فرما دیتا ہے اور ارتکاب ظلم کے وقت توبہ کا تصور نہیں ہوتا۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرما اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جس آیت سے سب سے زیادہ امید وابستہ ہے وہ یہ آیت ہے۔ ( الفا مع لاحکام القرآن جز 9 ص 249، مطبعوعہ دارلفکر بیروت، 1415 ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 6