وَلَوۡ اَنَّ قُرۡاٰنًا سُيِّرَتۡ بِهِ الۡجِبَالُ اَوۡ قُطِّعَتۡ بِهِ الۡاَرۡضُ اَوۡ كُلِّمَ بِهِ الۡمَوۡتٰى ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الۡاَمۡرُ جَمِيۡعًا ؕ اَفَلَمۡ يَايۡـئَسِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيۡعًا ؕ وَلَا يَزَالُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا تُصِيۡبُهُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَةٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِيۡبًا مِّنۡ دَارِهِمۡ حَتّٰى يَاۡتِىَ وَعۡدُ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخۡلِفُ الۡمِيۡعَادَ۞- سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَوۡ اَنَّ قُرۡاٰنًا سُيِّرَتۡ بِهِ الۡجِبَالُ اَوۡ قُطِّعَتۡ بِهِ الۡاَرۡضُ اَوۡ كُلِّمَ بِهِ الۡمَوۡتٰى ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الۡاَمۡرُ جَمِيۡعًا ؕ اَفَلَمۡ يَايۡـئَسِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيۡعًا ؕ وَلَا يَزَالُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا تُصِيۡبُهُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَةٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِيۡبًا مِّنۡ دَارِهِمۡ حَتّٰى يَاۡتِىَ وَعۡدُ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخۡلِفُ الۡمِيۡعَادَ۞
ترجمہ:
اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس سے پہاڑچلائے جاتے یا زمین کو مسافت (جلد) طے کی جاتی یا اس سے مردوں کے ساتھ باتیں کی جاتیں (تو پھر بھی ایمان نہ لاتے) بلکہ تمام چیزیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں، کیا پس ایمان والوں پر یہ منکشف نہیں ہوا کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا، اور کافروں کو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب (مصیبت) آتی رہے گی حتی کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا، بیشک اللہ و عدہ خلافی نہیں کرتا۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس سے پہاڑ چالئے جاتے زمین کی مسافت (جلد) طے کی جاتی یا اس سے مردوں کے ساتھ باتیں کیا جاتیں ( تو وہ پھر بھی ایمان نہ لاتے) بلکہ تمام چیزیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں، کیا پس ایمان والوں پر یہ منکشف نہیں ہوا کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا اور کافروں کو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب ؛ مصیبت اتی رہے گی حتی کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (الرعد : 31)
کفار کے فرمائشی معجزات اس لیے نہیں دیئے گئے کہ اللہ کے علم میں وہ ایمان لانے والے نہ تھے :
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ کعبہ کے پیچھے مشرکین مکہ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی تھے۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلوایا، آپ تشریف لے آئے۔ عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو آپ مکہ کے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے کھسکاکر دور دور کردیں حتی کہ ہماری زمین کشادہ ہوجائے، یہ زمین بہت تنگ ہے، اور زمین میں چشمے اور دریا بنادیں تاکہ ہم اس زمین میں فصل اگائیں اور باغ لگائیں۔ آپ کا مرتبہ آپ کے رب کے نزدیک حضرت داؤد سے کم نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی تو پہاڑ مسخر کردیئے تھے اور وہ ان کے ساتھ چلتے تھے اور ہمارے لیے ہوا کو مسخر کر دیجئے تاکہ ہم اس پر سوار ہو کر ملک شام میں جائیں اور اپنی ضروریات پوری کریں، پھر اسی دن ہم ہوا کے دوش پر سفر کرتے ہوئے واپس آجائیں، اور آخر آپ کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تو مسخر کردیا تھا اور آپ کا مر تبہ آپ کے رب کے نز دیک حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کم تو نہیں ہے، اور آپ ہمارے لیے اپنے دادا قصی کو زندہ کر دیجئے یا ہمارے مردوں میں سے کسی اور کو زندہ کر دیجئے ہم اس سے یہ تحقیق کریں گے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں ہو برحق ہے یا باطل، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے تھے اور آپ کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نز دیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کم تو نہیں ہے ! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ سب چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں الیکن اگر ان کی یہ فرمائش پوری کردی جاتی تو یہ پھر بھی ایمان نہ لاتے۔ (الجامع لا حکام القرآن جز 9 ص 278، تفسیر کبیر ج 7 ص 42، جامع البیان جز 13 ص 200، البحرالمحیط ج 6 ص 388)
اس اشکال کا جواب کہ مومنین اللہ کی قدرت سے مایوس تو نہ تھے :
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
افلم ینا یئس الذین امنوا ان لو یشاء اللہ لھدی الناس جمیعا۔ اس آیت کا لفظی معنی ترجمہ اس طرح ہے : کیا پس ایمان والے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مایوس نہیں ہوئے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایمان والے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مایوس نہیں نہیں تھے بلکہ ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے گا پھر اللہ تعالیٰ نے کیو فرمایا کہ کی پس ایمان والے اس سے مایوس نہیں ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان والے اس مایوس تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سب لوگوں کو ہدایت دے دے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت سے مایوس ہونا کفر ہے اور اس آیت میں اس کفر یہ معنی کی نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں مبارک کے مومنین کی طرف کی گئی ہے۔ مفسرین کرام نے اس اشکال کا یہ جواب دیا ہے کہ افلم کا یئس کا معنی افلم یعلم یا افلم یتبین ہے یعنی کیا مومنوں کی یہ علم نہیں ہوا یا ان پر یہ واضع اور منکشف نہیں ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سب لوگوں کو ہدایت دے دے گا۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ افلم ییئس کی ایک قرات افلم یتبین ہے اور حضرت علی، حضرت ابن عباس (رض) ، عکرمہ، مجاہد، ابو مالک اور مقاتل وغیر ہم نے اس لفظ کو اسی طرح پڑھا ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ النسخع کی لغت میں ییئس کا معنی یعلم ہے یعنی کیا پس انہوں نے نہیں جانا الخ۔ ابن طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی راوایت کیا ہے اور حسن بصری، قتادہ، ابن زید، اور ابن قتیبہ کا یہی قول ہے۔ قاضی بیضاوی اور بعض دیگر مفسرین نے اس اشکال کا یہ جواب بھی ذکر کیا ہے کہ علم سبب سے اور مایوسی مسبب ہے۔ جب مسلمان کو یہ علم ہوگا کہ اگر اللہ چاہے تو سب کو ہدایت دے دسکتا ہے تب ہی وہ ان کافروں کے ایمان لانے سے مایوس ہوں گے سوا اس آیت میں ذکر مسبب کا ہے اور اس سے مراد سبب ہے اور مایوس سے مراد علم ہے یعنی کیا پس مسلمانوں کو یہ علم نہیں ہوا کہ اگر اللہ چاہے تو سب لوگوں کو ہدایت دے دے گا۔
امام ابو جعفر محمد بن جریری طبری متوفی 310 ھ، علامہ ابو الحسن الماوردی المتوفی 450 ھ، علامہ الحسین بن مسعود البغوی متوفی -516 ھ، علامہ عبدرالرحمن بن علی الجوزی المتوفی 597 ھ، امام فخرالدین رازی متوفی 606 ھ، علامہ ابو عبداللہ قرطبی متوفی 668 ھ، علامہ جلالدین سیوطی متوفی 911 ھ، علامہ شہاب الدین خفاجی متوفی 1069 ھ، علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ اور تقریبا تمام معمتد مفسرین نے ان جوابات کا ذکر کیا ہے۔ ہم نے اختصار کی وجہ سے چند مفسرین کے اسماء ذکر کیے ہیں، ان کی کتابوں کے حوالہ جات حسب ذیل ہیں (جامع البیان جز 13 ص 200، النکت والعین ج 3 ص 112، معالم التنزیل ج 3 ص 15، زادالمسیر ج 4 ص 389، تفسیر کبیر ج 7 ص 42، الجامع لا حکام القرآن جز 9 ص 279 انوارالتنزیل ج 3 ص 330 غرائب القرآن ج 4 س 161، البحرالمحیط ج 6 ص 379، الدرالمنشورج 4 ص 651، عنایت القاضی ج 5 ص 418، روحالمعانی جز 13 ص 224)
ییئس کا ترجمہ علم اور اطمینان کے ساتھ کرنے والے علماء :
اس آیت کے ترجمہ میں اکثر مترجمین نے افلم ییئس کا ترجمہ علم اور اطمینان کیا ہے اور بعض مترجمین نے افلم ییئس کا ترجمہ مایوسی ہی کیا ہے، جن علماء نے اس کا ترجمہ علم اور اطمینان کیا ہے وہ یہ ہیں :
شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی متوفی 691 ھ اس آیت کے ترجمہ میں ہیں :
آیا پس ندانستد آنا ن کہ گردید آنرا کہ خواہد خدائے ہر آئندہ رہ نما مردماں راہمہ را۔ الخ
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی 1176 ھ لکھتے ہیں :
آیا ندانستہ اند مسلمانان کہ اگر خواستی خداراہ نمودے مرداماں راہمہ یکجا۔ الخ
شاہ عبدالقادر متوفی 1230 ھ لکھتے ہیں :
کیا خاطر جمع نہیں ایمان والوں کو اس پر کہ اگر چاہے اللہ راہ پر لادے سب لوگ
علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری المتوفی 1418 ھ لکھتے ہیں :
کیا نہیں جانتے ایمان والے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا
اور ہم نے اس آیت کا اس طرح ترجمہ کیا ہے : کیا پس ایمان والوں پر منکشف نہیں ہوا کو اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا۔
ییئس کا ترجمہ نا امیدی کرنے والے علماء :
اور جن علماء نے ییئس کا ترجمہ مایوسی کیا ہے ان کے تراجم اس طرح ہیں :
اعلی حضرت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی متوفی 1340 لکھتے ہیں :
تو کیا مسلمان اس سے ما امید نہ ہوئے کہ اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کردیتا۔
محدث اعظم ہندسید محمد کچھوچھوی متوفی 1961 ھ لکھتے ہیں :
تو کیا ناامید جو ایمان لاچکے اس بات سے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو راہ دے دیتا۔
غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی متوفی 1406 ھ لکھتے ہیں :
تو کیا مسلمان اس بات سے ناامید نہ ہوئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کردیتا۔
بعض عصات مومنین کا آیات وعدی کو عموم سے مخصوص ہونا :
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور کافروں کو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب مصیبت آتی رہے گی۔ آیت کے اس حصہ کے حسب ذیل دو محمل ہیں :
(1) کفار مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو عداوت رکھتے تھے، آپ کی نبوت کا انکار کرتے تھے اور برے اعمال کرتے تھے اس کی وجہ سے آئے دن ان پر آفتیں اور مصائب آتے رہتے تھے اور ان کی جان، مال اور اولاد کا نقصان ہوتا رہتا تھا، یا عنقیریب ان پر مصائب آئیں گے جن سے یہ خوف اور دہشت میں مبتلا ہوں گے حتی کہ اللہ تعالیٰ کا ودہ ہے آجائے گا اس سے مراد ان کی موت ہے یا قیامت ہے۔
(2) کفار مکہ ہمیشہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دشمنی کا سلوک کرتے تھے اور آپ کی تکذیب کرتے رہتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ اسلام کے لیے مکہ کے گردنواح لشکر بھیجتے رہتے تھے، اور ان کے گھروں کے قریب مسلمانوں کے لشکر حملہ کرتے رہتے تھے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا وقت آجائے گا اور آپ مکہ فتح کرلیں گے، اللہ تعالیٰ نے آپ سے فتح مکہ کا وعدہ فرمایا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا، اس سے مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو ڈھارس اور تسلی دینی ہے اور آپ کے دل سے عم کا ازالہ کرنا ہے۔
بعض علماء نے ان آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اور وعید کے خلاف نہیں کرتا خواہ وہ وعید کفار سے متعلق ہو یافساق مومنین سے۔ اس سے لازم آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فساق مومنین کو عذاب کی جو وعید سنائی ہے اللہ تعالیٰ اس کے خلاف نہیں کرے گا اور گناہ کبیرہ کے مرتکبین سے عذاب ساقط نہیں ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض مسلمان گناہ گاروں سے عذاب ساقط کر دے گا اس آیت کے عموم سے وہ مخصوص ہیں اور اس تخصیص پر وہ آیات دلیل ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کو معاف کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 31