قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ يَدۡعُوۡكُمۡ لِيَـغۡفِرَ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُؤَخِّرَكُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَاؕ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ ۞- سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ يَدۡعُوۡكُمۡ لِيَـغۡفِرَ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُؤَخِّرَكُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَاؕ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے متعلق شک ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے بعض گناہ ہوں کو بخش دے اور موت کے مقرر تک تم کو عذاب سے موخر رکھے، انہوں نے کہا تم تو محض ہماری مثل بشر ہو تم تو یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہمارے آباؤاجداد پرستش کرتے تھے سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لاؤ
تفسیر:
اللہ تعال کا ارشاد ہے : ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے متعلق شک ہے جو آسمانوں اور مینوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے بعض گنا ہوں کو بخش سے اور موت کے مقرر وقت تک تم کو (عذاب) سے موخر رکھے، انہوں نے کہا تم محض ہماری مثل بشر ہو تم تو چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہمارے آباء و اجداد پرستش کرتے تھے سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لا۔ (ابراھیم : 10)
مشرکین اللہ کو خالق ماننے کے باوجود بت پرستی کیوں کرتے تھے !
رسولوں نے کہا کیا تمہیں اللہ کے متعلق شک ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے ولا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت اور بداہت عقل اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ چھوٹی سی صنعت بھی بغیر صانع کے وجود میں نہیں آتی، تو اتنی بڑی کا ئنات بغیر کسی بنانے والے کے کیسے وجود میں آسکتی ہے اور وہ بھی اس بات کو جاننے اور مانت تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس کا ئنات کو پیدا کیا ہے۔ قرآں مجید میں ہے : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ ( العنکبوت : ٦١) اور اگر آپ ان سے یہ سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا، اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ( العنکبوت : ٦٣) اگر آپ ان سے یہ سوال کریں کہ آسمان سے کس نے پانی کو اتارا ؟ پھر اس سے کس نے زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، آپ کہئے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔
مشریکن مکہ اللہ کو خالق ارض وسما مانتے تھے، ان کا شرک یہ تھا کہ وہ بتوں کو اللہ کا شریک قراردیتے تھے اور اس اعتقاد سے بتوں کی عبادت کرتے تھے کہ وہ اللہ کی بار گاہ میں ان کی شفاعت کریں گے۔ پچھلے زمانہ کو لوگ گزرے تھے ان کے توسل سے دعائیں قبول ہوتی تھیں اور ان کی تعظیم و تکریم کی جاتی تھی یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن ان کے فوت ہونے کے بعد و لوگوں ان کی صورتوں اس خو دمجسمے بنا لیے اور ان کی تعظیم میں غلوکرکے ان کی عبادت شروع کردی اور ازخودان کے توسل میں غلو کی اور براہ راست ان کو پکاران اور ان سے مدد مانگنا شروع کردیا اور پھر مزید غلو کر کے ان کو خدائی کا موں میں اللہ کا شریک اور اس کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والا قرار دے دیا اور یہ تمام باتیں ان کے بڑوں اور ان کے آباء و اجداد کو شیطان نے القاء کی تھیں اور وہ نسل اس عقیدہ میں پختہ اور راسخ ہوچکے تھے اور یہ شرک ان کے دل و دماغ کی گہرائیوں میں پیوست ہوچکا تھا، اللہ تعالیٰ تواتر اور تسلسل سے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجتارہا تاکہ وہ اس شریک سے باز آجائیں۔
اللہ تعالیٰ توبہ کے ساتھ اور بغیر توبہ کے بھی گناہوں کو بخش دیتا ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو بخش دے۔ امام رازی کی تحقیقی یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بغیر توبہ کے گناہوں کے بخشنے کی نوید سنائی۔ (تفسیر کبیرج 7 ص 72، بیروت 1415 ھ)
اور اسی طرح کی اور آیتیں بھی ہیں :
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ حِيمٌ ( آل عمران : ٣١) آپ کہئے اگر تم سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔
يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ( الاحزاب : ٧١) اللہ تمہارے اعمال کو درست کرے گا اور تمہارے گنا ہوں کو بخش دے گا۔
يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ ( احقاف : ٣١) اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف بلانے والے کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ اللہ تمہارے گنوہوں کو بخش دے گا۔
يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (الصف :12) تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ( الرعد : ٦) بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کی مغفرت کرنے والا ہے۔
اس آیت کے تحت امام رازی نے لکھا ہے اللہ تعالیٰ گناہ کبیرہ کے مرتکن کو بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج 7 ص 12، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
اور بعض آیت میں یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد گناہ معاف فرما دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا (النساء :110) اوار جو شخص برے کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بہت مہربان پائے گا۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا ( النساء : ٦٤) اور اگر انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا تو وہ آپ کے پاس آجائیں پھر اللہ سے استغفار کریں اور سول بھی ان کے لیے استغفار کریں تو وہ اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان پائیں گے۔
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (١٣٥) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ( آل عمران : ١٣٦) اور وہ لوگ جنہوں نے بےحیائی کا کوئی کام کرلیا، یا وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تو انہوں نے اپنے گنا ہوں پر استعفار کی اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخشتا ہے اور وہ اپنے کاموں پر عمدا اصرار نہ کریں۔ ان لوگوں کی جزاء ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور نیک عمل کرنے والوں کی کیسی اچھی جزا ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ کرنے سے بھی ان کے گناہ معاف فرماتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شفاعت کرنے سے بھی ان کے گناہ معاف فرماتا ہے اور اپنے کرم اور فضل سے بغیر توبہ اور شفاعت کے بھی گناہ معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ سورة ابراھیم کی اس زیر تفسیر آیت میں ہے :
يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ ( ابراھیم : ١٠) اس آیت میں مبن تبغیض کے لیے ہے، اس کا معنی ہے اللہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے بعض گناہوں کی بخش دے اور یہ وہ بعض گناہ ہیں ج وکفر کے علاوہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ شرک کو نہیں بخشے گا :
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (النساء :48) بیشک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک کیا جائے اور اس سے کم جو گناہ ہوگا اسکو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔
اس سے واضع ہوگیا کہ کفر اور شرک کے سوا جو گناہ ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے، اور اس پر واضح دلیل ہے کہ کافر جب اسلام قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو کی توبہ کے بغیر معاف کردیتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن العاص سے فرمایا : کیا تم معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو متا دیتا ہے۔۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 121 سنن کبری للبیہقی ج 9 ص 98، مسند ابوعوانہ ج 1 ص 70، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :2515، ) تو مسلمان کے متعلق زیادہ تو قع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کے بغیر توبہ کے معاف فر دے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر بہت بڑا فضل اور کرم ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان توبہ کرنے سے غافل اور بےپر واہ ہوجائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نہ کرنے کے بعد بھی اگر ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے تو یہ اس کا انتہائی فضل اور کرم ہے، بندوں کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں پر اور اس کی نعمتوں کا کماحقہ شکر ادانہ کرنے پر اس کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہیں۔ توبہ کرنے ترغیب میں بہت احادیث وارد ہیں ہم چند احادیث کا ذکر کر رہے ہیں :
توبہ کرنے کی ترغیب میں احادیث :
حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ رات میں کناھ کرنے والا توبہ کرے۔ (وہ یو نہی کرتا رہے گا) حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٧٥٩، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١١٨٠)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اس سے پہلے توبہ کرلے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2703)
حضرت صفوان بن عسال (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مغرب کی طرف توبہ کا ایک دروازہ ہے جس کی چوڑائی چالیس سال یا ستر سال کی مسافت ہے۔ اللہ عزوجل نے اس دروازہ کو اس دن کھولے دیا تھا جس دناس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا اور اس دروازہ کو اس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (سنن الترمذی رقمالحدیث :3536، شعب الایمان رقم الحدیث :7076)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اور وہ اس گناہ سے الگ ہوجاتا ہے اور استغفار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اس کا صاف ہوجا تا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک اور نقطہ پڑجاتا ہے حتی کہ اس کا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور یہ وہی ران ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے :
كَلا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (المطففین : 14) ہرگز نہیں ! ان کے دلوں پر ان کے (برے) کاموں نے زنگ چڑھادیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3334، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 4244، مسند احمد ج 2 رقم الحدیث :297، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :930 ۔ 2787، المستدرک ج 2 ص 517)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کو اپنی گمشسہ سواری کے مل جانے سے جتنی خوشی ہوتی ہے اللہ کو تمہاری توبہ سے اس زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3538، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4247)
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا تم سے جس قدر ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور ہر پتھر کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور تم جو براکام کرو اس کے بعد توبہ کرو، پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ کرو اور کھلم کھلا گناہ کی توبہ کھلم کھلا کرو۔ ، (المعجم الکبیرج 20 ص 159، حافظ الہثیمی نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج 10 ص 74)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس گناہ نہ کیا ہو۔ ( سنن ابن ماجہ رلق الحدیث 4250، شعب الا یمان : 7178)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابن آدم شک تو نے مجھ سے دعا کی اور مجھ سے امید رکھی، تم میں جو بھی گناہ تھا اس کو میں نے معاف کردیا اور مجھے پرواہ نہیں، اے ابن آدم ! اگر تو پوفی روئے زمین کے برابر گناہ لے کر آیا پھر تو نے مجھ سے ملا قات کی تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت لاؤں گا بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3540)
انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت میں کفار کے شبہات :
اس بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انہوں نے کہا تم محض ہماری مثل بشر ہو، یہ کفار کا انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت میں ایک شبہ ہے اور اس کی تقریر یہ ہے کہ تمام انسانوں کی ماہیت اور حقیقت ایک ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان ہی انسانوں میں سے ایک شخص اللہ کا رسول ہو وہ غیب پر مطلع ہو، اور وہ فرشتوں کو دیکھتا ہو اور ان کا کلام سنتاہو اور باقی انسان ان صفات سے عاری ہوں، اور اگر یہ شخص جو رسالت کا مدعی ہے ان رحانی صفات میں عام لوگوں سے بلند اور برتر ہے تو پھر چاہیے کہ یہ جسمانی صفات میں بھی عام لوگوں سے بلند اور برتر ہو، حالا ن کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کھانے، پینے، فضلات کے اخراج میں، بیمار پڑنے اور ازدواجی معاملات میں یہ عام لوگوں سے بلند نہیں ہیں بلکہ ان ہی کی مثل ہیں کھاتے پیتے اور زمین پر چلتے پھر تے ہیں۔
اورا انبیاء علیہم السلا کی نبوت میں ان کا دوسرا شبہ یہ تھا کہ انہوں نے کہ اتم تو یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہماری آباء و اجداد پر پرستش کرتے تھے ان کی یہ شببہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید پر مبنی ہے یعنی انہوں نے اپنے آباء و اجداد اور انہؤن نے اپنے عالموں وار درویشوں کی بتوں کی عبات کرتے ہوئے پایا اور یہ بہت بعید ہے کہ تمام پرانے لگ غلطی پر ہوں اور اتنے کثیر لوگوں کو غلطی پر قرار دینے کی بنست یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ ایک شخص کو غلطی پر قرار دیا جائے اور اب کا تیسرا سبہ یہ تھا کہ اگر تم واقعی نبی ہو تو اپنی نبوت پر وہ معجزہ پیش کرو جس کو ہم نے طلب کیا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 10