وَمَا لَـنَاۤ اَلَّا نَـتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَقَدۡ هَدٰٮنَا سُبُلَنَاؕ وَلَــنَصۡبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَيۡتُمُوۡنَاؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 12
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا لَـنَاۤ اَلَّا نَـتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَقَدۡ هَدٰٮنَا سُبُلَنَاؕ وَلَــنَصۡبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَيۡتُمُوۡنَاؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ۞
ترجمہ:
اور ہم اللہ پر توکل کیوں نہ کریں اس نے ہمیں اپنے راستوں کی ہدایت دی ہے اور تم نے جو ہمیں تکلیف پہنچائیں ہیں ہم ان پر ضرور صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم اللہ پر توکل کیونہ کریں اس نے ہمیں اپنے راستوں کی ہدایت دی ہے اور تم نے جو ہمیں تکلیفیں پہنچائی ہیں ہم ان پر صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔ (ابراھیم : 12)
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا سب سے زیادہ ہونا :
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ شکر فرمایا تھا کہ کفار کی دھمکیوں کو جواب میں انبیاء علیم السلام نے کہا تھا کہ مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے اور اس آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) نے اہبت پیروکاروں کو یہ تلقین کی کہ وہ اللہ پر ہی توکل کریں اور اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلنا میں کفار کی طرف سے جو سختیاں جھیلنی پڑیں اور جن مصائب کا سامنا ہو ان کو حو صلہ سے برداشت کریں اور اللہ پر توکل کرنے کو کس حال میں نہ چھوڑیں۔
ان آیتوں میں کئی قسم کے انسانوں کا ذکر آگیا ہے، عام کافروں کا کافروں کے سردار کا جو انہیں کفر پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں، انبیاء (علیہم السلام) کا اور ان کے متبعین کا ان کو ضبط کے ساتھ اس طرح بیان کی جاسکتا ہے۔
(1) عام کفار : یہ وہ لوگ ہیں جو عقائد اور اعمال سے ناقص ہیں لیکن یہ دوسروں کو ناقص بنانے کی سعی نہیں کرتے، یہ فقط خود گمراہ ہیں۔
(2) کافروں کے سردار : یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی عقائد اعمال کے اعتبار سے ناقص ہیں اور دوسروں کو بھی ناقص بناننے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
(3) عام مسلمان : یہ وہ لوگ ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) کے متبع ہیں لیکن ان کی اتباع درجہ کمال کو نہیں پہنچی ہوئی، یہ عقائد اور اعمال کے اعتبار سے فی نفسہ کامل ہیں۔
(4) اولیاء کرام : یہ لوگ عقا ائد اور اعمال کے اعتبار سے اعلی درجہ کے کامل ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کے کامل متبع ہیں۔
(5) انبیاء (علیہم السلام) : یہ وہ لوگ ہیں جو عقائد اور اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ کامل ہیں اور دوسروں کو بھی درجہ کمال تک پہنچاتے ہیں۔
انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق ہم نے ذکر کیا کہ یہ دوسروں کی تکمیل کرتے ہیں اور چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے روحانی مدارج مختلف ہوتے ہیں اس لیے ان کی تکمیل کے مراتب بھی مختلف ہوتے ہیں۔ بعض کی تکمیل سوافراد سے متجاوز نہیں ہوتی، بعض ہزاروں کی تکمیل کرتے ہیں اور بعض لاکھوں، کروڑوں اور اربوں، کھربوں کی تکمیل کرتے ہیں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے زیادہ افراد کی تکمیل کی۔ جس وقت آپ کا ظہور ہوا اس وقت دنیا میں یہودی، نصرانی، مجوس اور بت پرست بکثرت تھے اور آپ نے ان تمام گمراہ لوگوں کو راہ ہدایت پر لاکھڑا کیا، بت پرستوں کو بت شکن بنادیا جو تین خداؤں کا مانتے تھے ان کو موحد بنادیا جو صرف دنیا کی زندگی کے قابل تھے ان کو آخرت کا معتقد بنادیا۔
امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261 ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں سب سے پہلے جنت میں شفاعت کروں گا کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری تصدیق کی گئی ہے اور بعض انبیاء ایسے ہیں جن کی ان کی امت میں سے صرف ایک فرد نے تصدیق کی۔ (صحیح مسلم الایمان : 330 (196) 475)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں : ایک صبح ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا : آف رات انبیاء (علیہم السلام) اپنی امتوں کے ساتھ مجھ پر پیش کیے گئے پس ایک نبی گزرے اور ان کے ساتھ ان کے صرف تین امتی ہوتے اور ایک نبی گزرتے اور ان کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا حتی کہ میرے پاس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گزرے اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کا ایک ہجوم تو مجھ ان پر بہت تعجب ہوا، میں نے کہا یہ کون لوگ ہیں ؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ تمہارے بھائی حضرت موسیٰ ہیں اور ان کے ساتھ بنو اسرائیل ہیں۔ میں کہا پھر میری امت کہاں ہے ؟ مجھ سے کہا گیا اپنی دائیں جانب دیکھئے میں نے دیکھا تو بہت لوگ تھے جن کے چہروں نے ٹیلوں کو چھپالیا تھا پھر مجھ سے کہا گیا کہ اپنی بائیں جانب دیکھئے میں دیکھا تو لوگوں کے چہروں سے آسمان کے کنارے چھپ گئے تھے مجھ سے کہا گیا کہ اب آپ راضیہ ہوگئے ؟ میں کہا ہاں اب میں راضی ہوگیا ! اے میرے رب ! اب میں راضی ہوں ! مجھے بتاتا گیا ان کے ساتھ ستر ہزار ایسے ہوں گے جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! اگر تم سے ہو سکے تورم ان ستر ہزار میں سے ہوجاؤ اگر تم اس گرح نہ کر سکوتو ان میں سے ہوجاؤ جنہوں نے ٹیلوں کو چھپالیا تھا اگر تم ایسا نہ کرسکو تو ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جنہوں نے آسمانوں کے کناروں کو بھر لیا تھا کیونکہ میں نے دیکھا وہاں مخلوط لوگ تھے ! حضرت عکاشہ بن محصن نے کہا : یارسول اللہ ! میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ان ستر ہزار میں سے کردے، آپ نے اس کے لیے دعا کردی پھر ایک اور شخص نے کہا یا رسول اللہ ! آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے ! آپ نے فرمایا : تم پر عکاشہ نے سبقت کرلی پھر ہم نے آپس میں کہا تم جانتے ہو یہ ستر ہزار کون ہیں ؟ ہم نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام پر پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہیں کیا حتی کہ یہ فوت ہوگئے ! جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو گرم لوہے سے داغ لگواکر علاج نہیں کراتے تھے اور نہ دم کرواتے تھے، نہ بدفالی نکالتے تھے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے تھے۔ (مسند احمد ج 1 ص 401، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :3806، عالم الکتب مسند احمد رقم الحدیث 3806 دارالحدیث قاہرہ شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مسند ابو یعلی رقم الحدیث 5339، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :7346، مسند البزار رقم الحدیث :3541، مجمع الزوائدج 10 ص 406 ۔ 405، مصنف عبدرزاق رقم الحدیث :19519، المعجم الکبیر رقم الحدیث :9766)
اس حدیث میں جو دم کر انے اور گرم لوہے کے داغ سے علاج کرنا ے کی ممانعت ہے وہ اس صورت پر محمول ہے جب ان کو شفا کا قطعی سبب اعتقاد کیا جائے ورنہ احادیث میں داغ لگوانے اور دم کرانے کا ثبوت موجود ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 12