وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ ۞- سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ ۞
ترجمہ:
اور جب ابراھیم نے دعا کی کہ اے میرے رب ! اس شہر (مکہ) کو امن والا شہر بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی پرستش کرنے سے محفوظ رکھ۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ابراھیم نے دعا کی کہ اے میرے رب ! اس شہر مکہ کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کی بتوں کی پرستش کرنے سے محفوظ رکھ۔ اے میرے رب ! بیشک ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے سو جس نے میری پیروی کی وہ بیشک میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تو بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (35 ۔ 36)
مکہ کو امن والا بنانے کی دعا پر اعتراض کے جوابات :
آیات سابقہ میں دلائل سے یہ راضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس تمام کائنات کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی تمام مخلوقات کا پروردگار ہے اس لیے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے تو اس آیت میں اس کے مناسب یہ ذکر فرمایا : کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے بتوں کی پرستش کا انکار فرمایا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دو چیزیں کی دعا کی : ایک یہ کہ اس شہر مکہ کو امن والا بنادے اور دوسری یہ کہ مجھے اور میرے بیٹوں کی بت پرستی سے محفوظ رکھ۔
اس مقام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ اے میرے رب ! اس شہر کو امن والا بنادے ! لیکن ان کی یہ دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ عبدالملک کے دور خلافت 72 ھ میں حجاج بن یوسف نے کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے اور کعبہ کے پردے جلائے گئے اس کا جواب یہ ہے کہ حجاج بن یوسف کا مقصد کعبہ کو نقصان پہنچانا نہیں تھا بلکہ حضرت ابن الزبیر کو شکست دینا تھا کعبہ کو بالتبع نقصان پہنچا اور قرامطہ نے 317 ھ میں مکہ میں لوٹ مار کی کعبہ پر حملہ کیا، سینکڑوں حجاج کو قتل کی اور حجراسود کو اٹھاکر لے گئے تھے جس کو بائیس سا بعد واپس کیا۔ امام رازی نے اس سوال کے حسب ذیل جوابات دیئے ہیں۔
(1) حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا کی تھی اور اب کا مقصد یہ تھا کہ اس شہر کو ویران ہونے سے محفوظ رکھ۔
(2) اس شہر والوں کو محفوظ رکھ۔ (3) مکہ امن والا شہر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جو خوف زدہ شخص مکہ میں داخل ہوتا ہے وہ مامون ہوجاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے شدید مخالفت اور دشمنی کے باوجود جب مکہ میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے شہر سے مامون ہوجاتے ہیں اسی طرح جنگلی جانور جب مکہ میں داخل ہوتے ہیں تو انسان سے نہیں بھاگتے اور مکہ کی حدود سے باہر انسانوں سے بھاگتے ہیں۔
(4) حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے جو دعا کی تھی مکہ کو امن والا بنادے اس سے مقصود یہ تھا یکہ تو مکہ میں امن قائم کرنے کا ؟ حکم دے دے اور مکہ کو حرم بنادے اور حدود مکہ میں قتل اور خوں ریزی کو خصوصیت کے ساتھ منع فرمادے لہذا مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم بنادیا حتی کہ زمانہ جاہلیت میں کفار بھی مکہ مکرمہ میں باہم قتل اور خون ریزی سے باز رہتے تھے۔ یہ ایک تشریعی حکم ہے اور اگر کسی نے اس حکم کی مخالفت کی تو وہ بہر حال آخرت میں عذاب کا مستحق ہوگا اور یہ تکو ینی حکم نہیں ہے کہ ضرور مکہ میں ہمیشہ امن رہے گا۔
اولاد ابراھیم کو بت پرستی مامون رکھنے کی دعا پر اعتراض کے جوابات :
حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے جو دوسری دعا کی تھی کہ مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی پرستش کرنے سے محفوظ رکھ، اس پر یہ اعترض ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں ہو پیدائشی مومن ہوتے ہیں اور تا حیات ایمان پر قائم رہتے ہیں پھر حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے یہ دعا کیوں کی کہ مجھے بت پرستی سے محفوظ رکھ۔ اس کا یہ جواب ہے کہ مجھے بت پرستی سے اجتناب پر قائم رکھ اور اس پر دوام عطا فرما، اور دوسراجواب یہ ہے کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے تواضع اور انکساری کے طور پر یہ دعا کی اور اللہ کی طرف اپنی احتیاج کو ظاہر کی اواریہ کہ انہیں ہرحال میں اور ہر وقت اس کے فضل اور کرم کی ضرورت ہے۔
اس جگہ پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے دعا کی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے بیٹوں کو بھی بت پرستی سے محفوظ رکھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول نہیں فرمائی کیونکہ کفار قریش کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کی کی اولاد میں سے تھے حالانکہ وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ ان کی صلب سے جو بیٹے پیدا ہوں ان کی اللہ تعالیٰ بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھے اور اس کا دوسراجواب یہ ہے کہ ان کی یہ دعا ان کی اولاد میں سے مومنین کے ساتھ مخصوص تھی کیونکہ اس کے بعد انہوں نے فرمایا فمن تبعنی فانہ منی سو جو میری پیروی کرے گا وہ میرا ہے اور اس کی نظیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا تھا : آپ کا بیٹا آپ کے اہل سے نہیں ہے کیونکہ اسکے عمل نیک نہیں ہیں (ھود :46) اور اس کا تیسراجواب یہ ہے کہ ہرچند کہ کہ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کی دعا عام تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا ان کی بعض اولاد کے حق میں قبول فرمائی اور اس میں انبیاء (علیہم السلام) کی شان میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ دعا کی قبولیت میں کوئی نقص ہے اور اس کی نظیر یہ آیت ہے :
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ( البقرہ : ١٢٤) اللہ نے فرمایا نے شک میں آپ کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ( ابراھیم) نے کہا اور میری اولاد دے بھی ! فرمایا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا۔
حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لیے امامت کے حصول کی دعا کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دعا ان کی بعض اولاد کے حق میں قبول فرمائی اور یہ ان کی شان میں کمی کا موجب نہ تھے نہ ان کی دعا کی قبولیت کی منافی تھی اسی طرح یہ آیت ہے۔
مرتکبین کبائر کی شفاعت پر دلیل :
حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے دعا کی سو جس نے میریپرولی کی وہ بیشک میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تو بہت بخشنے والا نے حد رحم فرمانے والا ہے۔
اس آیت میں حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے ان مسلمانوں کی شفاعت کی جنہوں نے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کی اور وہ بغیر توبہ کے مرگئے اس سے مراد مسلمان ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں انہوں نے کافروں سے بت سے برات کا یہ کہہ کر اظہار کردیا تھا کہ مجھے اور میرے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھنا نیز اس آیت کے پہلے جملہ میں انہوں نے کہا جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے اور جس نے ان کے دین کی پیروی کی اور کفر پر مصر رہا وہ ان کا نہیں ہے اور اوہ اس کی اصلاح کے درپے نہیں ہیں اوہم نے یہ کہا کہ اس سے کبیرہ گناہوں کے مرتکبین مراد ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو نیکیوں سے ویسے ہی معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعا نے فرمایا :
إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (ھود :114) بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔
نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرنے وجہ سے بھی صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلا كَرِيمًا ( النساء : ٣١) اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تم کو منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو معاف کردیں گے۔
پس صغیرہ گنا تو نیکیوں سے اور کبائر سے ویسے ہی معاف ہوجاتے ہیں ان کے لیے شفاعت کی ضرورت نہیں ہے۔ شفاعت کی ضرورت تو کبیرہ گناہوں کے لیے ہے اور ہم نے یہ کہا ہے کہ یہ شفاعت ان کبیرہ گناہوں کے لیے ہے جن پر توبہ کیے بغیر بندہ مرگیا ہو کیونکہ جن کبیرہ گناہوں پر بندہ توبہ کرلے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دیتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ (الشوری :25) اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جس کے چاہے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ (المائد 39) جس نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کی تو بیشک اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا ( الفرقان : ٧١) اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو بیشک وہ اللہ کی طرف برحق توبہ کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص مثل ہے جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4250، حلیتہ الاء لیاء ج 210، اس حدیث کی سندیہ پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس کی سند منقطع ہے کیونکہ ابو عبیدہ کا اپنے والد حضرت عبداللہ بن مسعود سے سماع نہیں ہے لیکن علامہ عینی نے لکھا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ سماع ثابت ہے عمدہ القاری ج 2 ص 303)
خلاصہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو کبائر سے اجتناب کرے یا نیک عمل کرنے سے ویسے ہی معاف ہوجاتے ہیں اور جن کبیرہ گناہوں پر توبہ کرلی ہے ان کو بھی اللہ تعالیٰ معاف فرماتا ہے لہذا حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کی شفاعت مسلمانوں کے ان کبیرہ گناہوں کے لیے ہے جن پر انہوں نے توبہ نہ کی ہو۔
اور جب حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے لیے ان کبیرہ گناہوں کی شفاعت ثابت ہوگئی تو سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی ان گناہوں کی سفاعت ثابت ہوگی۔ اول اس لیے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت میں فرق کا کوئی قائل نہیں ہے ثانیا اس لیے کہ منصب شفاعت بہت عظیم منصب ہے جب یہ منصب حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے لیے ثابت ہو تو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ببطریق اولی ثابت ہوگا کیونکہ آپ تمام انبیاء اور مرسلین سے افضل اور اکرام اور ان کے قائد ہیں ثالثا اس لیے حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے ان مرتکبین کبیرہ کی شفاعت کی ہے جنہوں نے توبہ نہ کی ہو یا توبہ سے پہلے مرگئے ہوں اور آپ کو ملت ابراھیم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو بھی ان کی شفاعت کا حکم دیا گیا ہے آپ کو حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم اس آیت میں ہے :
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (النحل :123) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ دین ابراھیم کی پیروی کریں جو باطل سے الگ حق کی طرف مائل تھے۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی فرمایا کہ میں مرتکبین کبائر کی شفاعت کروں گا۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے مرتکبین کبائر کے لیے ہے۔ ( سنن الترمذی رقم الحدیث :2435، مسند البزار رقم الحدیث :3469، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : 3284 صحیح ابن حبان رقم الحدیث 6468، المعجم الاوسط رقم الحدیث :8513، المستدرک ج 1 ص 69)
شفاعت کی تو قیع کے باوجود توبہ کرنے میں تاخیر نہ کی جائے :
واضح رہے کہ ہم نے جو کہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) ان مرتکبین کبائر کے لیے شفاعت فرمائیں گے جنہوں نے اپنے گناہوں پر توبہ نہ کی ہو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ مرتکبین کبائر توبہ کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہوں کیونکہ ایسے شخص کا تو ایمان بھی جاتا رہے گا نہ اس سے وہ لوگ مراد ہے جو کبائر پر اصرار کرتے ہوں ہرچند کہ وہ کافر نہیں ہیں اور عموم مغفرت اور شفاعت کے تحت داخل ہیں لیکن ہماری مرادہو لوگ ہی جو توبہ کرنا چاہتے ہوں لیکن کسی عارضہ کی بنا پر یا غفلت کی وجہ سے توبہ نہ کرسکے ہوں اور ہماری مراد یہ بھی نہیں ہے کہ سفاعت کی توقع پر مرتکب کبیرہ کو توبہ نہیں کرنی چاہیے اور ہماری مراد یہ بھی ہیں ہے کہ توبہ کرنے کے بعد انسان شفاعت سے مستغنی ہوجاتا ہے انسان کو صدق دل سے توبہ کرنے بعد بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کا طلب گار رہنا چاہیے کیونکہ یہ نیت اور یہ مدعا اور یہ مقصود ہونا چاہیے کہ الہ العا لمین ! ہماری توبہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاتع سے قبول فرما کیونکہ کوئی نعمت ہمیں براہ راست ملے اس سے زیادہ افضل اور اولی یہ ہے کہ وہ نعمت ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے ملے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (النساء :64) اور اگر وہ کبھی اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کے پاس آجاتے پھر اللہ سے ( اپنے ظلم پر) مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا بہت رحم فرمانے والا پاتے۔
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی امتی کی شفاعت فرمائیں گے تو اس سے یہ مترشح ہوگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو اپنا قرار دے رہے ہیں اور جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا فرمائیں اس کے لیے اس سے بڑھ کر کی نعمت ہوسکتی ہے !
اس آیت میں ہدایت ہے کہ پہلے خود اپنے گناہوں کی معافی چاہو اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے لیے شفاعت طلب کرو بندہ کی توبہ کرنے اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ بندہ کو معاف فرمادے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی عنایت اور اس کا بےپایاں کرم ہے ورنہ وہ بےپرواہ اور بےنیاز ذات ہے اس کی مشیت کے آگے کسی کا کیا چارہ ہے ہم نے لکھا ہے کہ مرتکب کبیرہ اگر تو بہ نہ کرے تو پھر اس کی شفاعت ہوگی اس سے مقصودیہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی عارضہ کی وجہ سے توبہ نہ کرسکا اور قضاء الہی سے مرگیا تو دلائل اور قوائد کے تحت وہ بھی انییاء (علیہم السلام) کی شفاعت کے تحت داخل ہے لیکن یہ کب ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کو اس کی شفاعت کا اذن عطا فرمائے اور یہ کب ضروری ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی وجاہت سے ازخود اس کی شفاعت فرمائیں اس لیے بندہ کو ہر آن اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے حتی کہ المقدور گناہوں سے بچتا رہے اور اگر شامت نفس سے کوئی گناہ ہوجائے تو فورا توبہ کرلے کیا پتا اس کب موت آجائے اور اس کو توبہ کی مہلت نہ ملے !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 35