وبائی امراض واموات اور اسلامی پیغامات
sulemansubhani نے Tuesday، 5 May 2020 کو شائع کیا.
وبائی امراض واموات اور اسلامی پیغامات
کورونا وائرس کے تناظر میں ایک چشم کشا تحریر
تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
کووڈ ١٩( کورونا وائرس) کی وبا سے آج پوری دنیا حیران و پریشان ہے ہر فرد اس وبائی بلا کے خوف میں گرفتار ہے لیکن یہ آج کی کوئی نئی بات نہیں ہے بیماریوں کا آنا جاناتو نظام کائنات کا ایک حصہ ہے انہیں بیماریوں میں کچھ ایسی بیماری بھی ہوتی ہے جو کبھی کبھی وبائی صورت اختیار کر لیتی ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ متاثر ہوجاتا ہے آج وہی خطرناک اور سنگین وبائی بیماری ہمارے سماج میں در آئی ہے جسے ہم کورونا وائرس کا نام دیتے ہیں جس نے ہمیں مقہور اور گھروں میں محصور کر رکھا ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نہ دکھائی دینے والے معمولی سے وائرس نے پوری دنیا کو موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے ڈاکٹرس اور ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون اور جذام کی طرح کورونا وائرس بھی ایک متعدی وبائی بیماری ہے جو ہمارے لئے نہایت مضر اور مھلک ہے حکومتوں نے اپنے شہریوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے علاج کے علاوہ سماجی دوری اور لاک ڈاؤن جیسے اہم اقدامات بھی کئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے بالکل مطابق وموافق ہیں لیکن مسلمان جو ذات الٰہی اور تقدیر وآخرت پہ یقینِ کامل رکھتا ہے اس کو اس وائرس سے گھبرا نے اور خوف زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لیے آزمائش ہے اور جو شخص آزمائشی مراحل میں صبر وشکیب کی منزل عبور کر لیتا ہے وہی کامیاب وکامران گردانا جاتا ہے انبیاء ومرسلین علیہم السلام جو کہ معصوم ہوتے ہیں انہیں بھی آزمائشی مراحل سے گزرنا پڑا ہے قرآن پاک میں جا بجا اس کے شواہد موجود ہیں اب یہیں ذرا سا ٹھہرجائیں اور سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش وصبر کا واقعہ ملاحظہ کر لیں تاکہ ایسے ناگفتہ بہ اور کسمپرسی کے ماحول میں ہمیں عزم وحوصلے کے ساتھ بے چین دلوں کو قرار بھی نصیب ہوجائے حضرت ایوب علیہ السلاماللہ کے برگزیدہ رسول اور ابراہیم علیہ السلام کی نسل پاک میں بڑے صابر وشاکر پیغمبر گزرہے ہیں جن کا صبر آج بھی ضرب المثل ہے.آپ علیہ السلام نہایت دولت مند ،صاحب ثروت، بڑے زمیندار اور بہت خوبصورت تھے.مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سخی اور دریا دل بھی تھے .غریبوں مسکینوں پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے کوئی سوالی ان کے دروازے سے کبھی خالی نہیں لوٹتا تھا.لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان لیتاہے ان کے ایمان کو آزماتا ہے حضرت ایوب علیہ السلام بھی آزمائش میں ڈالے گئے.ان کی اولاد جن مکانوں میں رہتی تھی وہ گرپڑے تمام اولاد مکانوں کے ملبے تلے دب گئ.لٹیروں کا گروہ تمام مویشیوں کو ہانک لے گیا لہلہاتی ہوئی زمین کو آگ لگا دی گئی خود حضرت ایوب علیہ السلام کو کوڑھپن کی بیماری لاحق ہوگئ.پھوڑے خراب ہوگئے اور صورت حال نہایت سخت ترین اور پریشان کن ہوگئی ہنسی خوشی کی زندگی یکایک غم واندوہ کی تاریکی میں ڈوب گئی.ایسے حالات میں دوست احباب رشتہ دار سب چھوڑکر چلتےبنےسوائےایک بیوی الیا (elliya) کے اور کوئی ساتھ نہ رہاالیا(بی بی رحمت) حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں صورت وسیرت میں یکتائے روزگارخاتون تھیں صورت حال اتنی سنگین ہوگئی کہ بیماری کی وجہ سے لوگوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کو بستی سے باہر نکال دیا. بی بی رحمت اِلیا انہیں بستی کے باہر ایک خیمے میں لے کر آئیں حتی المقدور ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشس کرتی رہیں.رہائش کا مسئلہ تو حل ہوگیا لیکن کھانے پینے کا بندوبست کیسے ہوتا سیدنا ایوب علیہ السلام توکام کاج کے قابل تھے نہیں اولاد مکان کے ملبے ہی میں دفن ہو گئی تھی احباب، قبیلے والے اور رشتہ دار پہلے ہی ساتھ چھوڑ چکے تھے کوئی بھی آپ کی مدد کو تیار نہ تھا.لیکن نیک بیوی نے ہمت نہیں ہاری لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنے لگی لوگوں کے لیے روٹیاں پکاتی ان کے برتن مانجھتی شام کو جو کچھ بھی روکھا سوکھا ملتا لاکر سیدنا ایوب علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کردیتی.اسی آزمائش مین 18 سال گزر گئے.نیک بیوی نے اپنے شوہر کی بڑی خدمت کی کبھی ایک حرفِ شکوہ بھی زبان پر نہیں آیا دونوں میاں بیوی اللہ کی اس آزمائش پر صبرو شکر کرتے رہے سیدنا ایوب علیہ السلام خود نہایت صابر و شاکر تھے آپ کی زبان ہمیشہ ذکر الہٰی سے تر رہتی تھی قرآن پاک نے ہمیں اس انداز میں اس واقعہ کی طرف متوجہ کیا ہے ” اور ایوب کی اس حالت کو یادکرو جب کہ انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے”اور آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے :ہم نے ان کی سن لی جو دکھ انہیں تھا اسے دور کردیا اور انہیں اہل و عیال سب کچھ عطا فرمادیا اپنی خاص مہربانی سےتاکہ سچے بندوں کے لیے باعث نصیحت ہو”(سورۃ الانبیاء) ہوا یوں کہ ایوب علیہ السلام جب حاجت کے لیے جایا کرتے تو اہلیہ کام کاج سے واپس آکر انہیں ساتھ لے کر اپنےٹھکانے پرآجاتیں.اب کے ایوب علیہ السلام حاجت کے لیے گئے تو اہلیہ کو آنے میں ذرا دیر ہوگئ.ادھر اللہ رب العالمین نے ایوب علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ زمین پر پاؤں ماروآپ نے پاؤں مارا تو ٹھنڈے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا.اللہ تعالی نے فرمایا”یہ پانی پیو اور نہاؤ انہوں نے پیا اور نہائے تو بھلے چنگے ہوگئے.اس طرح ایوب علیہ السلام پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئے بدن دمکنے لگا ،فرشتوں کے ذریعہ پوشاک پہنائی گئ.سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوئی اور آزمائش ختم ہوئی ادھر بادلوں نے سیدنا ایوب علیہ السلام کے کھیتوں پر سونا اور چاندی برسایا مال، متاع ،اولاد ،سب کچھ واپس مل گیا وہ بھی دوگنا ہوکر اور جن لوگوں نے آزمائش کے دنوں میں آپ پر ظلم وتشدد، نفرت وحقارت، طعنہ وتشنیع کے تیر برسائے تھے ان میں سے کچھ نے تو عبرت حاصل کیا اور باقی اپنی موت آپ مر گئے .اس واقعہ کے بعد سیدنا ایوب علیہ السلام مزید 70 برس زندہ رہے دین ابراہیمی کی تبلیغ کرتے رہے .اور صبر ایوب علیہ السلام رہتی دنیا تک کے لیے ضرب المثل بن گیا.(ماخوذاز تذکرۃالانبیاء) مومنانہ صفت یہی ہوتی ہےکہ جب اللہ کی طرف سےکوئی آزمائش آجائے تو صبروشکر کے ماحول میں اللہ سے تعلق اور مضبوط کر لیا جائے سیدنا ایوب علیہ السلام کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کا مقرب نبی جو خطاؤں سے پاک ہوتا ہے معصوم ہوتا ہےاللہ نے اسے بھی آزمایا آزمائش بھی تھوڑی نہیں 18 برس کی کٹھن طویل مدت تھی. لیکن ایوبی صبر نے قلیل اور آسان بنا دیا آج جب ہم اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو معاملہ برعکس نظر آتا ہے کوئی دکھ پریشانی یا آزمائش آجائے فوراً صبرکادامن چھوڑ دیتے ہیں اللہ سے شکوہ وشکایت شروع کردیتے ہیں مومن بندے کی صفت یہ ہرگز نہیں ہے جب پریشانی آجائے آزمائش آجائے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چائیے اور استقامت کی دعامانگنی چائیے اللہ کریم ہے ضرورمددفرماۓگا اور ان شاءاللہ دوگنا اجر بھی ملے گا.اس واقعہ سے ایک اور افسوس ناک پہلو سامنے آتا ہے وہ ہے لاتعلقی اور انحراف کا پہلو حضرت ایوب علیہ السلام جب سخت بیمار ہوئے تو رشتہ دار اور قبیلے والے سب ساتھ چھوڑ گئے تھے یہ مذموم عادت ہمارے معاشرے میں اب بھی موجود ہے بلکہ مزید سے مزید تر ہے آج اگر کوئی کورونا وائرس کا مریض پایا جاتا ہے تو لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں پورا سماج اس کورونا مریض کو عداوت و نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگتا ہے میرے بھائیو چاہے کورونا مریض ہو یا اور کوئی مریض وہ قابل نفرت ہرگز نہیں ہے باوثوق ذرائع ابلاغ کے مطابق یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کو لوگ اپنے قبرستان میں دفن کر نے سے بھی انکار کر دے رہے ہیں سوچئے کہ ہم کتنے بے غیرت اور ضمیر فروش ہو گئے ہیں کہ قابل احترام جنازے کو بھی غیروں کیطرح ملامت و نفرت کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں آخر کورونا سے بیمار ہو نے والے یا مرنے والے کا قصور کیا ہے شک آپ سماجی فاصلے اختیار کریں یا جو بھی حکومت کی ہدایات ہیں ان پر شوق سے عمل کریں لیکن خدارا کسی بھی مریض یا میت سے نفرت نہ کریں اس لئے کہ وہ قابل نفرت نہیں بلکہ قابلِ رحمت ہیں ہمارا تو عقیدہ یہ ہے کہ بیماری، پریشانی، مصیبت، آرام سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے تو پھر اتنی بے غیرتی کیوں؟ہم گناہ گاروں کے لیے تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ جو بیماری اور مصیبت میں صبر کرکے بیماری سے نجات پالے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور وبائی یعنی وائرس کی موت کے حوالے سے تو بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے لیے بشارت عظمیٰ ہے.اب جگر تھام کے رحمت اللعالمین کی رحمت بھری بشارت ملاحظہ کیجئے یقیناً روح مومن کو بالیدگی قلب مسلم کو تابندگی اور ایمان عاشقاں کو پختگی اور پوری انسانیت کو تسکین حاصل ہوجائے گی حضرت نضر بن شمیل سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا گیا تو نبیﷺ نے فرمایا یہ ایک عذاب تھا اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا اس کو بھیجتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین کے لیےرحمت بنا دیا۔اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے لکھ دیا ہے اُس کے سوا اُس کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتااور پھر طاعون (آج کے کورونا وائرس) کی وجہ سے اُس کا انتقال ہو جائے تو اُسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔(بخاری:۵۷۳۳)قرآن گواہی دیتا ہے کہ شہید کی جنت کا ضامن خود خالق جنت ہے شہید ان نعمتوں میں ہوگا جنہیں اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے محشر میں شہید کے سر پر یاقوت وجواہرات کا تاج عزت سجایا جائے گا وہ انبیاء ومرسلین اور صالحین کا ساتھی ہے حق تو یہ ہے کہ شہید کبھی مرتا ہی نہیں ہے وہ تو حیات مستعار دے کر حیات ابدی کا مالک بن جاتا ہے لہٰذا میری آپ سے گزارش ہے کہ کورونا وائرس کے خوف سے باہر نکل کر کورونا وائرس کے خالق سے خوف کیجئے احتیاط وتدابیر اور حکومتی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے خالقِ حقیقی اور مسبب الاسباب پر ایمان مضبوط کیجئے اس لئے کہ وہی موت وحیات کا مالک وخالق اور کارساز حقیقی ہے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کوہر بلا ہر وبا سے سے محفوظ ومامون فرمائے.آمین