وَلَـقَدۡ جَعَلۡنَا فِى السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّزَيَّـنّٰهَا لِلنّٰظِرِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 15 الحجر آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَـقَدۡ جَعَلۡنَا فِى السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّزَيَّـنّٰهَا لِلنّٰظِرِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور بیشک ہم نے آسمان میں برج بنائے اور ہم نے ان کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کردیا۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور بیشک ہم نے آسمان میں برج بنائے اور ہم نے ان کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کردیا۔ ہم نے ان کو ہر راندہ درگاہ شیطان سے محفوظ کردیا سو اس کے جو چوری سے (فرشتوں کی باتیں سنے تو اس کے پیچھے چمکتاہو انگارہ آتا ہے (16 ۔ 18)
بروج کا لغوی اور اصطلاحی معنی
بروج برج کی جمع ہے اس کے معنی بلند عمارت اور محل ہیں۔ گبند اور ستارے کے مقام کو کہتے ہیں آسمان کا بارہواں حصہ جو رصد گاہوں سے دکھائی دیتا ہے اس کو برج کہتے ہیں علماء ہیئت کہتے ہیں کہ آسمان نو ہیں سات آسمانوں میں سے ہر آسمان میں ایک سیارہ ہے سات سیارگان یہ ہے قمر، زحل عطارد، شمس، مشتری، مریخ اور زہرہ اور آٹھویں آسمان میں وہ ستارے ہیں جو ثابت ہیں گردش نہیں کرتے) اور نویں آسمان کو وہ فلک اطلس کہتے ہیں وہ سادہ ہے اور آٹھویں آسمان میں ستاروں کے اجتماعی سے جو مختلف شکلیں بنتی ہیں وہ اس نویں آسمان میں نظر آتی ہیں جن کو رصد گاہوں میں دیکھا جاتا ہے۔ کہیں یہ شکل شیر کی سی بن جاتی ہے اس کو برج اسد کہتے ہیں اور کہیں ترازو کی سی شکل بنتی ہے اسکو برج میزان کہتے ہیں اور کہیں یہ شکل بچھو کی سی بنتی ہے اس کو عقرب کہتے ہیں یہ کل بارہ برج ہیں حمل، ثور، جواز، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت سورج ہر ماہ میں ایک برج کی مسافت کو طے کرتا ہے اور ایک سال میں بارہ بروج کی مسافت قطع کرتا ہے۔ گرمی، سردی، بہار، خزاں۔ یہ چاروں موسم سورج کی اسی حرکت سے وجود میں آتے ہیں (روح المعانی جز 14 ص 33 ۔ 32 ملخصا وموضحا)
ترقی اردو بورڈ کی مرتب کردہ لغت میں لکھا ہے :
سیارہ کا دائر گردش جسے اس کا گھر مقام یا منزل کہتے ہیں آسمانی دائرہ کے بارہ حصوں میں سے ہر ایک راس قدیم ہئیت دانوں نے ستاروں کے مقامات سمجھنے کے لیے منطقہ یار اس منڈل (فضا) کے بارہ حصے کیے ہیں ہر حصہ میں جو ستارے واقع ہیں ان کی اجتماعی صورت سے جو شکل بنتی ہے اس حصہ کا نام اسی شکل پر رکھ دیا گیا ہے مثلا چند ستاے مل کر شیر کی سی شکل بناتے ہیں اس حصہ کا نام برج اسد رکھ لیا گیا ہے۔ ( اردو لغت ج 2 ص 995، مطبوعہ محیط اردو پریس کراچی)
ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں :
اہل عرب ستاروں اور برج کے علم کو بہت عظیم علوم میں سے شمار کرتے تھے اور ان سے راستوں، اوقات اور ان سے خشک سالی اور فصل کی سرسبزی اور زرخیزی پر استدلال کرتے تھے مریخ کا برج الحمل اور العقرب ہے اور زہرہ کا برج الثور اور المیزان ہے اور عطارد کا برج الجوزاء اور السنبلہ ہے اور القمر کا برج السر طان ہے اور الشمس کا برج الاسد ہے اور مشتری کا برج القوس اور الحوت ہے اور زحل کا برج الجدی اور لدلو ہے۔ (تفسیر منیر ج 14 ص 20 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1411)
علوم نجوم کی تعریف
علم نجوم کی تعریف، سیاروں کی تاثیرات یعنی سعادت و نحوست اور واقعات آئندہ کی حسب گردش پیش گوئی یامعاملات تقدیر اور اچھے برے موسم کی خبر دینے کا علم۔ (اردو لغت ج 13 ص 519 مطبوعہ محیط اردو پریس کراچی۔ 1991 ء)
نجومی کہتے ہیں کہ انسان جس تاریخ کو پیدا ہوا اس تاریخ کو سورج جس برج میں تھا وہ اس شخص کا برج ہے پھر وہ اپنے حساب سے اس کا ستارہ معلوم کرتے ہیں اور انہوں نے ستاروں کی جو تاثیر فرض کی ہوں اس اعتبار سے وہ اس شخص کی قسمت کا حال بیان کرتے ہیں لیکن یہ سب اٹکل پچو اور ڈھکو سلے ہیں غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ماسوا ان نفوس قدسیہ کے جن کو اللہ تعالیٰ وحی یا الہام کے ذریعہ غیب پر مطلع فرماتا ہے۔
دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھا ہے۔
علم نجوم کی بیناد اس اصول پر ہے کہ اس جہان میں جتنی بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں ان سب کا اجرام سماعی (سیارگان) کی طرف مخصوص طبائع اور ان کی حرکات سے قریبی تعلق ہے انسان عالم اصغر ہونے کی حثیت سے پورے عالم اکبر کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے بالخصوص سیاروں کی تاثیر ات کے تابع ہے۔ اس میں خواہ ہم بطلیموس کی پیروی میں واضح طور پر اس عملی نظریہ کو تسلیم کریں کہ اجسام فلکی کی نکلی ہوئی شعاعوں سے ایسی قوتیں یا اثرات خارج ہوتے ہیں جو معمول (قابل) کی طبیعت کو عامل (فاعل) کی طبیعت کے مطابق بنادینے کی صلاحیت رکھتے ہو یا راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ہم خیال ہونے کی غرض سے اجسام سماوی کو آئندہ ہونے والے واقعات کا اصل فاعل نہ مانتے ہوئے محض ان واقعات کی نشانیاں (دلائل) تصور کریں۔ ستاروں کا اثران کی ان کی انفرادی نوعیت پر نیز زمین یا دوسرے ستاروں کے لحاظ سے ان کے مقام پر منحصر ہے لہذا اس عالم کے واقعات اور انسانی زندگی کے نشیب و فراز ہمیشہ لاتعداد اور نہایت متنوع بلکہ متناقض سماوی اثرات کے نہایت پیچیدہ اور متغیرہ امتزاج کے تابع ہوتے ہیں ان اثرات کو جاننا اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ نظر میں رکھ کر دیکھنا منجم کا محنت طلب کام ہے (اردو دائرہ معارف السلامیہ ج 1 ۔ 14 ص 305، مطبوعہ لاہور)
ستاروں کی تاثیرات ماننے کا شرعی حکم
اسلام میں ستاروں کو موثر ماننا کفر اور باطل ہے۔
حضرت زید بن خالدک جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی۔ آسمان پر رات کی بارش کے اثرات تھے آپ نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے پھر فرمایا : تم جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے میرے بعض بندوں نے صبح کی تو وہ مجھ پر ایمان لانے والے بھی تھے اور میرا کفر کرنے والے بھی تھے سو جس نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور سیارہ (ستارہ) کا کفر کرنے والا ہے اور جس نے کہا فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے وہ میرا کفر کرنے والا ہے اور سیارہ (ستار) پر ایمان لانے والا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :846، صحیح مسلم رقم الحدیث : 71، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :3906)
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث میں کفر سے مراد مشرکین کا کفر ہے کیونکہ اس کو ایمان کے مقابلہ میں ذکر فرمایا ہے اور یہ اس کے متعلق ہے جس کا اعتقاد یہ ہو کہ ستاروں کی تاثیر اور ان کے فعل سے بارش ہوتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد کفر ان نعمت ہو جبکہ اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ نے ہی بارش کو پیدا کیا ہے تو وہ خطاکا رہے کافر نہیں ہے اور اس کی خطا دو وجہوں سے ہے ایک اس وجہ وے کہ اس کا یہ قول شریعت کے مخالف ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ اس کا یہ قول کفار کے مشابہ ہے اور ہم کو کفار کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے آپ نے فرمایا ہے مشرکین اور یہود کی مخالفت کرو اور ان کی مشابہت سے منع فرمایا ہے اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے اقوال اور افعال میں ان کی مخالفت کریں۔ (عمدہ القاری جز 6 ص 137 مطبوعہ ادارہ الطباعتہ المنیر یہ مصر، 1348)
علامہ یحییٰ بن شرف نوادی متوفی 676 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
جس شخص کا یہ اعتقادہو کہ ستارہ فاعل مدبر (موثر) اور بارش برسانے والا ہے اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے اور جس نے یہ کہا کہ فلاں فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش ہوئی اور اس کا اعتقاد یہ تھا کہ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوئی ہے اور یہ ستارہ بارش کے وقت کی علامت ہے تو اس کے قول کی تا ویل یہ ہے کہ فلاں وقت میں بارش ہوئی ہے لہذا اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور اس قول کے مکروہ ہونے میں اختلاف ہے اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے (صحیح مسلم بشرح النوودی ج 1 ص 679، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ 1417 ھ)
یہ تو اس شخص کا حکم ہے جو افعال اور آثار کے صادر ہونے کی نسبت سیاروں اور ستاروں طرف کرے لیکن جو نجومی ستاروں اور برج کی مدد سے زائچہ بناکر غیب کا دعوی کرے اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے۔ جس طرح نجومی کا غیب کی باتیں بتانا کفر ہے اسی طرح کسی نجومی کو غیب دان اعتقاد کر کے اس سے مستقبل میں پیش آنے والے امور اور غیب کی باتیں پوچھنا بھی کفر ہے۔
شہاب ثاقب کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔
شہاب وہ چھوٹے چھوٹے اجرام یا شہاب جن کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے زمین کی حرکت سے مخالف سمت میں حرکت پیدا ہوتی ہے وہ ان کو جلاکر خاک کردیتی ہے نظام شمشی کے جن مختلف ارکان کا اوپر ذکر ہوچکا ہے ان کے علاوہ بیشمار اور چھوٹے چھوٹے اجرام ہیں جن شہاب ثاقب کہتے ہیں۔ علم ہیئت ص 110)
وہ چمکتا ہوا ستارہ جو آسمان سے گرتایا آتش بازی کی طرح چھوٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
شہاب ثاقب کا ٹکڑا جو راکھ ہونے سے پہلے زمین تک پہنچ جاتا ہے اور دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا ہے بعض اوقات ایسے شہاچے زمین پر گڑ پڑتے ہیں جن کا سائز کافی بڑا ہوتا ہے (اردو لغت ج 16 ص 750، مطبوعہ اور دو پریس کراچی، 1991 ء)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
جلتی ہوئی آگ کے چمک دار شعلہ کو شہاب کہتے ہیں۔ (المفردات ج 1 ص 352، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ۔ 1418 ھ)
علامہ ابو سعاد ات المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے جب جنات فرشتوں کی باتیں چوری سے سنتے ہیں تا بسا اوقات ان کو شہاب پکڑ لیتا ہے اس سے پہلے کہ وہ یہ باتیں کسی کے دل میں القاء کریں اور شہاب سے آپ کی مراد ہے جو رات کے ستارے کی مانند ٹوٹتا ہے اور وہ اصل میں اگ کا شعلہ ہوتا ہے۔ النہایہ ج 2 ص 457 مطبوعہ درالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)
بروج سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت پر استدلال
ان آیتوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منکرین نبوت کے شہبات کا جواب دے کر ان کا ازالہ فرمایا تھا اور یہ واضح اور جلی ہے کہ نبوت کا ثبوت الوہیت کے ثبوت پر مبنی ہے تو اب اللہ تعالیٰ الو ہیت کے دلائل کو بیان فرمارہا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ آسما نوں میں بروج بنائے ہیں اور ان کو دیکھنے والوں کے لیے مزین فرمایا ہے ان کو الو ہیت پر اس طرح دلالت ہے کہ ہر برج دوسرے برج سے مختلف ہے اور ان کا اختلاف اس پر دالالت کرتا ہے کہ قادر مختار اور رضاع ازل نے جس برج کو جس ہئیت پر چاہا اس ہئیت پر بنادیا اور ضروری ہے کہ ان کا بنانے والا واجب اور قدیم ہو کیونکہ اگر وہ ممکن اور حادث ہو تو اس کو خود اپنے وجود میں سے کسی علت کی احتیاج ہوگی اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ واجب اور قدیم ہو واحد ہو کیونکہ تعدد وجباء محال ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے کئی بار ذکر کرچکے ہیں لہذا آسمانوں میں بروج کا ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ ان کو کوئی خالق ہو اور ضروری ہے کہ وہ خالق واجب اور قدیم اور واحد ہو۔
آپ کی بعثت سے پہلے شہاب ثاقب گرائے جانے کے متعلق متعارض احادیث۔
پھر فرمایا ہم نے ان آسمانوں کو شیطان رجیم سے محفوظ کردیا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ شیطان اس پر قادر نہیں کہ وہ آسمان کو منہدم کرسکے پھر آسمانوں کو شیطان رجیم سے محفوظ کرنے کا کیا معنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو آسمان کے قریب جانے سے منع کردای بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بعثت سے پہلے بھی شہاب ثاقب گرائے جانے کا عمل معمول اور متعارف تھا اور بعض احدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل آپ کی بعثت کے بعد شروع ہوا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعال آسمان پر کسی امر کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں جیسے زنجیر کو صاف پتھر پر مارا جائے پھر اللہ تعالیٰ اس حکم کو نافذ فرما دیتا ہے جب فرشتوں کے دلوں سے کچھ خوف دور ہوجاتا ہے تو وہ ایک دوسرے پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا تھا ؟ وہ کہتے ہیں اس نے جو کچھ فرمایا وہ حق ہے اور وہی سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے پھر فرشتوں کی گفتگوں کو چرانے والے شیطان ان باتوں کو چوری سے سننے کی کوشش کرتے ہیں سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کشادہ کرکے ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر دکھایا اور کہا شیطان اس طرح ایک دوسرے کے اوپر تلے ہوتے ہیں اور یہ فرشتوں کی گفتگو کو چوری سے سننے والے ہیں بعض اوقات اس چوری سے سننے والے کو آگ کا ایک شعلہ آکر لگتا ہے اس پہلے کہ وہ اپنے ساتھی یہ بتائے کہ اس نے کیا سنا تھا وہ شعلہ اس سننے والے کو جلا ڈالتا ہے اور بعض اوقات وہ شعلہ اس کو نہیں لگتا حتی کہ وہ سننے والا اپنے قریب والے کو بتادیتا ہے پھر وہ اس کو بتادیتا ہے جو اس سے نیچے ہوتا ہے حتی کہ وہ ان باتوں کو زمین تک پہنچا دیتے ہیں پھر وہ یہ باتیں جادو گر کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ ان باتوں کے ساتھ سو جھوٹ اور ملا لیتا ہے پھر اس کی تصدیق کی جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ کیا اس جادوگر نے ہم کو فلاں دن ایسی ایسی خبر نہیں دی تھی ! اور ہم نے اس خبر کو سچاپایا تھا اور یہ اس وجہ و سے ہوتا ہے کہ اس نے آسمان کی خبر سن لی تھی۔ صحیح البخاری رقم الحدیش 4701، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 4723 ۔ 4725، سنن الترمذی رقم الحدیث :3360 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :194)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک ستارہ ٹوٹ کر گرا اور فضاروشن ہوگئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا جب تم زمانہ جاہلیت میں یہ منظر دیکھتے تھے تو اس کے متعلق کی کہتے تھے ؟ صحابہ کرام نے کہا ہم کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ آگ کا شعلہ کسی کو موت پر پھنکا جاتا ہے نہ کسی کی حیات پر لیکن ہمارا رب عزوجل جب کسی چیز کے متعلق کوئی فیصلا فرماتا ہے تو حاملین عرش سبحان اللہ کہتے ہیں پھر آسمان والے سبحان اللہ کہتے ہیں پھر جو ان کے قریب ہیں ہو سبحان اللہ کہتے ہیں پھر جو ان کے قریب ہیں وہ سبحان اللہ کہتے ہیں حتی کہ اس آسمان تک تسبیح پہنچ جاتی ہے پھر چھٹے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے پھر وہ ان کو خبردیتے ہیں پھر ہر نچلے آسمان والا اپنے سے اوپر آسمان والے سے پوچھتا ہے حتی کہ آسمان دنیاتک یہ خبر پہنچ جاتی ہے اور شیاطین چوری سے اس خبر کو سن لیتے ہیں پھر وہ یہ خبر اپنے چیلوں اور دوستوں تک پہنچا دیتے ہیں امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3224 مسند احمد ج 1 ص 218، دلائل النبوہ للبیہقی ج 8 ص 138
صحیح بخاری اور سنن ترمذی کی ان حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے جو اس طرح دکھائی دیتے تھے جیسے ستارے ٹوٹ کر گر رہے ہوں اور بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بعثت سے پہلے یہ عمل نہیں ہوتا تھا اور شیاطین کو آسمان پر چڑھنے اور فرشتوں کی باتیں سننے سے منع نہیں کیا جاتا تھا حدیث میں ہے :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (پہلے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات پر قرآن مجید نہیں پڑھا تھا اور نہ ان کو دیکھا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو جماعت کے ساتھ عکاظ کے بازار میں گئے اور آسمان کی خبر اور شیاطین کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان کے اوپر آگ شعلے پھنکے جاتے تھے پس شیاطین اپنی قوم کی طرف گئے اور انہوں نے کہا ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کیا چیز حائل ہوگئی ہے اور ہم پر آسمان کے شعلے پھینکے جاتے ہیں انہوں نے کہا ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے پھر انہوں نے زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کیا ،۔ ان کی ایک جماعت تہامہ کی طرف گئی اور وہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا یہ ہے وہ چیز جو تمہارے اور آسمان کے درمیان حائل ہوگئی ہے پھر وہ اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور کہا اے ہماری قوم ! بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے ہم اس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں قرار دیں گے صحیح بخاری رقم الحدیث : 773 ۔ 4921، صحیح مسلم رقم الحدیث : 449، سنن الترمذی رقم الحدیث : 3323، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :1626)
ان متعارض احادیث میں قاضی عیاض اور علامہ قرطبی کی تطبیق۔
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی 544 ھ لکھتے ہیں اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے جاتے تھے اور ان پر آگ کے شعلے نہیں پھینکے جاتے تھے کیونکہ سیاطین نے ا پر تعجب کیا اور ان کا سبب معلوم کرنے کی جستجو کی یہی وجہ ہے کہ عرب میں پہلے کو ہنوں کا بہت چرچا تھا اور لوگ مستقبل کی باتیں معلولم کرنے کے لیے ان کے پاس بالعموم جایا کرتے تھے حتی کہ اس کا سبب منقطع کردیا گیا اور سیاطین جو چوری سے فرشتوں کی باتیں سنا کرتے تھے۔ ان کے سننے کے درمیان آگ کے شعلے حائل کردیئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ انے فرمایا ہے :
وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا (٨) وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا (الجن : ٩) اور یہ کہ ہم نے آسمان کو چھوا تم ہم نے اس کو اس حال میں پایا کہ اس سخت پہرہ داروں اور آگ کا انگاروں سے بھر دیا گیا۔ اور ہم پہلے (فرشتوں کی باتیں) سننے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر بیٹھ جاتے تھے پس اب جو کان لگاکر سنتا ہے تو وہ اپنی گھات میں آگ کا شعلہ تیار پاتا ہے
إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ الشعراء : ٢١٢) بیشک شیاطین (فرشتوں کی گفتگو) سننے سے دور کئے۔
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ (الملک :5) اور بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین فرمادیا اور ان ستاروں کو شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بھی بنایا۔
إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ (٦) وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ (٧) لا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلإ الأعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ (٨) دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ (٩) إِلا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ (الصفت :6 ۔ 10) بیشک ہم آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین فرمادیا۔ اور سے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنادیا وہ شیاطین اوپر کے فرشتوں کی بات نہیں سن سکتے اور ان کو ہر طرف سے مار لگائی جاتی ہے۔ دور کرنے کے لیے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ سوا اس شیطان کے جو کوئی بات اچک لے تو شہاب ثاقب (چمکتا ہوا انگارہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔
اور تاریخ عرب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شہاب ثاقب کو بہت حیرت سے دیکھتے تھے کیو کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل اور علامات سے شمار کیا جاتا تھا اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے شہاب ثاقب گرتے رہے ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے اس سلسلہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے۔ ہم صحیح بخاری اور جامع ترمذی کے حوالے سے یہ حدیث ذکر کرچکے ہیں)
لیکن ان حدیثوں پر یہ اعتراض ہے کہ یہ حدییثیں قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہیں : وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا ( الجن : ٩) سو اب جو کان لگاکر سنتا ہے تو وہ اپنی گھات میں حفاظت کرنے والا شعلہ (شہاب ثاقب) تیار ہوتا ہے۔
مفسرین نے کہا ہے کہ آسمان کی حفاظت اور شہاب ثاقب کا گرانا پہلے بھی معروف تھا لیکن یہ پہلے اس وقت ہوتا تھا جب کوئی بہت بڑا واقعہ رنما ہوتا تھا۔ مثلا جب روئے زمین پر عذاب نازل ہوتا تھا یا جب زمین پر کوئی رسول بھیجا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں ہے جنات نے شہاب ثاقب کے متعلق کہا
وَأَنَّا لا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الأرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا ( الجن : ١٠)اورہم نہیں جانتے زمین والوں کے ساتھ کوئی برائی کا رادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے
اور ایک قول یہ ہے کہ شہاب ثاقب کا گرنا پہلے بھی دکھائ دیتا تھا اور معروف تھا لیکن شیاطین کو ان کے ذریعے دور کرنا اور جلانا یہ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد شروع ہوا ہے، اس لیے جنات نے اپنے دور کئے جانے پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور اس کا سبب تلاش کیا (اکمال المعلم بفوئد مسلم ج 2 ص 366 ۔ 364، مطبوعہ دارالوفاء بیروت 1419)
علامہ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی 656 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ دومتعارض اور مختلف حدیثیں ہیں ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی شہاب ثاقب گرائے جانے کا معمول تھا اور دوسری سے معلوم ہوتا ہے یہ امر آپ کی بعثت کے بعد شروع ہوا ہے اور ظاہر قرآن میں بھی اس کی تائید ہے۔ اسی وجہ سے علماء میں اختلاف ہوا حافظ نے کہا ہے کہ آپ کی بعثت سے پہلے شہاب ثاقب گرانے کا معمول نہیں تھا اور امام غزالی نے یہ کہا ہے کہ آپ سے پہلے یہ معمول تھا لیکن آپ کی بعثت کے بعد یہ بہت زیادہ ہوگیا اور اس طرح ان حدیثوں کا تعارض دور ہوگیا۔ (المفہم ج 7 ص 421 ۔ 460، مطبوعہ دارابن کثیر بیروت، 1417 ھ)
ان احادیث میں علامہ ابن حجر کی تطبیق۔
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :
امام عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ زہری سے سوال کی گیا زمانہ جاہلیت میں ستاروں کو شیاطین پر پھینکا جاتا تھا انہوں نے کہا ہاں لیکن اسلام آنے کے بعد اس میں زیادہ تفلیظ اور تشدید کی گئی اور یہ ان مختلف حدیثوں میں عمدہ تطبیق ہے۔ پھر میں وہب بن منبہ کی ایسی روایت دیکھی جس سے اشکال دور ہوجاتا ہے اور ان مختلف حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے انہوں نے کہا پہلے ابلیس تمام آسمانوں پر چڑھا کرتا تھا اور جس جگہ چاہتا تھا پھر تارہتا تھا جب سے حضرت آدم (علیہ السلام) جنت پر آئے تھے اس کا یہی معمول تھا اور اس کو منع نہیں کیا جاتا تھا حتی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھالیا گیا پھر اس کو چوتھے آسمان تک چڑھنے روک دیا گیا اور جب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو پھر اس کو بقیہ تین آسمانوں پر بھی چڑھنے سے روک دیا گیا ابلیس اور اس کا لشکر چوری چھپے جاکر فرشتوں کی باتیں سنا کرتا تھا ان پر ستارے مارے جاتے تھے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ امام طبری نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو زمانہ فترت تھا اس میں آسمان کی حفاظت نہیں کی جاتی تھی اور جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا تو آسمان کی بہت سخت حفاظت کی گئی اور شیاطین کو ستاروں سے رجم کیا گیا، لہذا ان کو اس پر بہت حیرت ہوئی اور رسدی کی سند سے روایت کیا ہے کہ آسمان کی صرف اس وقت حفاظت کی جاتی تھی جب زمین پر کوئی نبی یا کوئی دین غالب ہو اور شیاطین نے آسمانوں میں اپنے ٹھکانے بان رکھے تھے جہاں بیٹھ کر وہ فرشتوں کی باتیں سنا کرتے تھے اور جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو ان کو ستاروں سے رجم کیا گیا الزین بن المنیر نے کہا ہے کہ ظاہر حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے سہاب ثاقب کو نہیں پھینکا جاتا تھا اور واقعہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی دوسری حدیث میں ہے اور رہا یہ کہ قرآن مجید میں ہے
سو اب جو کان لگاکر سنتا ہے تو وہ اپنی گھات میں حفاظت کرنے والا شعلہ (شہاب ثاقب) تیار پاتا ہے (الجن :9)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ پہلے شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں کہ ہر شعلہ نشانہ پر لگتا ہے اور کوئی وار خطا نہیں جاتا اسی وجہ سے رصد کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور جب کوئی وار گھات لگاکر کیا جائے تو وہ چوکتا نہیں ہے خلاصہ یہ ہے ہے آپ کی بعثت کے بعد جو شہاب ثاقب شیاطین پر مارے جاتے ہیں وہ ہمیشہ نشانے پر لگتے ہیں اور اس سے پہلے کبھی وہ شہاب ثاقب نشانے پر لگتے تھے اور کبھی نہیں لگتے تھے یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے شیاطین پر شہاب ثاقب بالکل مارے نہیں جاتے تھے علامہ سہیلی اس پر اعتراض کیا ہے کہ اگر آپ کی بعثت کے بعد فرشتوں کا نشانہ خطا نہیں جاتا تو پھر چاہیئے کہ شیطان دوبارہ آسمان تک چڑھنے کی کوشش نہ کرتے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شہاب ثاقب گرانے کا عمل تو مسلسل ہوتا رہتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کو ہر بار یہ توقع اور امیدہوتی ہے کہ وہ چوری سے چھپ کر فرشتوں کی گفتگو سننے میں کامیاب ہوجائے گا اور فرشتوں کی مار سے بچ جائے گا لیکن وہ ہر بار ناکام اور نامراد ہوتا ہے اور اس پر آگ کے شعلے گرائے جاتے ہیں اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتا اور اپنی کوشش میں لگا رہتا ہے کیونکہ شر اس کی طبیعت میں ہے
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کے سبب سے شہاب ثاقب گرانے کے عمل میں تفلیظ اور تشدید کی گئی تھی تو پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا اور وحی منقطع ہوگئی شہاب ثاقب گرانے کا عمل بھی منقبع ہوجا نا چاہیے تھا حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شہاب ثاقب گرائے جانے کا عمل اسی طرح جاری وساری ہ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شہاب ثاقب نہ کسی کی موت کی وجہ سے گرائے جاتے ہیں نہ کسی کی حیات کی وجہ سے لیکن ہمارا رب جب کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو بعض آسمان والے بعض دوسروں کو اس کی خبر دیتے ہیں حتی یہ خبر آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے جب چوری سے اس خبر کو سن لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کے دلوں میں القا کردیتے ہیں اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شہاب ثاقب گرانے کے عمل کی شدت اور فرشتوں کی باتوں کی حفاظت اب بھی منقطع نہیں ہوئی ہے اور فرشتوں کو نئے نئے احکام ملتے رہتے ہیں اور باوجود اس کے شیاطین بہت سختی کی جاتی ہے ان کی گفتگو سننے کی طمع منقطع نہیں ہوتی اور جس طرح وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں چوری چھپے فرشتوں کی گفتگو سننے کے لیے آسمانوں پر چڑھتے تھے اب بھی اس کی کوشش کرتے رہتے ہیں امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت ذکر کی ہے جس میں یی دلیل بھی ہے کہ حضرت عمرفاروق (رض) کے زمانہ خلافت میں بھی فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ شفقفی اسلام لائے تو ان کا نکاح میں دس عورتیں تھیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں چار کو اخیتار کرلو۔ حضرت عمرفاروق (رض) کے عہد میں اس نے ان کے وارث ہونے کے خوف سے ان چاروں کو طلاق دے دی اور اپنا اپورامال اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت عمرفاروق (رض) تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا میرا یہ گمان ہے کہ شیطان نے فرشتوں کی جو باتیں چوری سے سنی تھیں اس میں اس نے تمہارے مرنے کی خبر سنی تھی اور اس نے تمہارے دل میں یہ بات ڈال دیا کہ تم عنقریب مرنے والے ہو (سو تم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی) اللہ کی قسم تم فورا اپنی بیویوں سے رجوع کرو اور اپنے مال میں رجوع کرو ( جو بیٹوں کو دے چکے ہو) اور نہ میں ان عورتوں کو تمہارا وارث قرار دو گا اور تمہاری قبر کو اس طرح رجم کرو کرنے کا حکم دو گا جس طرح ابورغال کی قبر کو رجم کی گیا تھا۔ (مسند احمد ج 2 ص 14 مسند احمد رقم الحدیث : 4631، عالم الکتب بیروت)
اس حدیث سے ظاہر ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی شیاطین چوری چھپے فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے آسمان پر چڑھتے تھے اور ان پر شہاب ثاقب اور آگ کے شعلے مارے جاتے تھے اور اگر وہ کبھی کوئی بات سن لیتے تو اس کو اپنے دوستوں کے دلوں میں القاء کردیتے تھے ہماری اس تقریر سے ہمارے جواب پر علامہ سہیلی کا جواب اعتراض تھا وہ ساقط ہوگیا۔ (فتح الباری ج 8 ص 673 ۔ 672، ملخصا مطبوعہ لاہور، 1401، )
حقیقت میں شیطان کو آگ کا شعلہ ماراجا تا ہے یا ستارہ ٹوٹتا ہے۔
اگر یہ اعترض کیا جائے کہ قرآن مجید اور احادیث میں ہے کہ شیطان کو آگ کے شعلے مارے جاتے ہیں اور ہمیں یہ کھائے دیتا ہے کہ ایک ستارہ ٹوٹتا ہے علامہ سمعانی متوفی 479 ھ) نے اس کے جواب میں یہ کھا ہے کہ و سکتا ہے کہ وہ ایک ستارہ ٹوٹتا ہو اور جب وہ شیطان تک پہنچتا ہو تو آگ کا شعلہ بن جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دور سے وہ ستارہ معلوم ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ آگ کا شعلہ ہو۔ (تفسیر القرآن العظیم ج 3 ص 133)
علامہ ابو عبداللہ قرطبی متوفی 668 ھ نے لکھا ہے کہ شہاب آگ کے چمک دار شعلے کو کہتے ہیں علماء نے کہا ہے کہ ہم کو ستارے ٹوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں ہوسکتا ہے ہم کو دکھائی ددیتا ہے وہ حقیقت میں ستارے ہی ٹوٹتاہو اور جب وہ شیطان کو جاکر لگتاہو وہ آگ کا شعلہ بن جاتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حقیقت میں آگ کا شعلہ ہو اور ہمیں یوں دکھائی دیتاہو کہ جیسے وہ ایک ستارہ ٹوٹتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 10، ص 12، مطبوعہ دارا لفکر دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر آیت نمبر 16
[…] کا لغوی اور اصلاحی معنی اور اس کی دیگر تفصیلات ہم نے الحجر : 16 میں لکھ دی ہیں۔ دیکھئے تبیان القرآن ج ٦ ص ٣٥٢۔ […]