وَقَالَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍ نَّحۡنُ وَلَاۤ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمۡنَا مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۚ فَهَلۡ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ ۞- سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍ نَّحۡنُ وَلَاۤ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمۡنَا مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۚ فَهَلۡ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ ۞
ترجمہ:
اور مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے (نہ) ہم نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام کہتے، ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح کیا تھا، سو پیغمبروں کے ذمہ تو صرف (اللہ کے) پیغام کو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے (نہ) ہم نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام کہتے، ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح کیا تھا، سو پیغمبروں کے ذمہ تو صرف (اللہ کے) پیغام کو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (النحل : ٣٥)
کفار مکہ کے اس اعتراض کا جواب کہ اگر اللہ چاہتا تو ہمیں مومن بنا دیتا :
کفار مکہ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں پہلے یہ شبہ پیش کیا کہ آپ جس قرآن کو اپنی نبوت کی دلیل قرار دیتے ہیں اس میں تو صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہ کو ذکر کر کے اس کا جواب دیا، پھر دوسرا شبہ یہ پیش کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہمارے نہ ماننے کی وجہ سے اب تک ہم پر عذاب کیوں نہیں آیا، سابقہ آیت میں اس کا جواب دیا، اور اب اس آیت میں ان کا تیسرا شبہ پیش فرمایا ہے جس میں کفار مکہ نے جبر کے طریقہ سے استدلال کیا ہے، انہوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم ایمان لے آتے، خواہ آپ دنیا میں آتے یا نہ آتے، اور جب ہر چیز اللہ کے پیدا کرنے سے ہوتی ہے تو اگر اللہ کو ہمارا ایمان مطلوب ہوتا تو وہ ہم کو مومن بنا دیتا اور اس میں آپ کو پیغام دے کر بھیجنے اور آپ کی تبلیغ کرنے کا کوئی دخل نہیں ہے۔
الانعام : ١٤٨ میں کفار کا یہ اعتراض گزر چکا ہے ان کے اس اعتراض کا مفصل جواب ہم اس آیت کی تفسیر میں ذکر کرچکے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا، تمام فرشتے اور مخلوق اپنے اختیار کے بغیر جبرا اللہ کی اطاعت کرتی ہے، بجز انسان اور جنات کے، اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ انسان اور جن اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے صرف ان ہی کے لیے جنت اور دوزخ کو بنایا اور باقی کسی مخلوق کے لیے جزا و سزا کا نظام نہیں بنایا، پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کو بھی پیدا کیا جو لوگوں کو کفر اور برے کاموں کی طرف اکساتا ہے اور نبیوں اور رسولوں کو بھی بھیجا جو لوگوں کو ایمان لانے اور نیک کام کرنے کا حکم دیتے ہیں، اور انسان کے اندر بھی دو قوتیں پیدا کیں ایک وہ قوت جو اس کو نیکیوں پر ابھارتی ہے اور ایک وہ قوت جو اس کو برائیوں پر اکستاتی ہے پھر انسان کو عقل سلیم عطا کی کہ وہ کفر اور ایمان اور برائی اور نیکی میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرے، جو ایمان اور نیکی کو اختیار کرے گا اس میں وہ ایمان اور نیک کاموں کو پیدا کردے گا اور جو کفر اور برے کاموں کو اختیار کرے گا تو وہ اس میں کفر اور برے کاموں کو پیدا کردے گا کیونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، پھر ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو اپنے فضل سے جنت اور اخروی نعمتیں عطا فرمائے گا اور کفر کرنے والوں اور برے کام کرنے والوں کو اپنے عدل سے دوزخ کے دائمی عذاب میں مبتلا کردے گا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 35