أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ زِدۡنٰهُمۡ عَذَابًا فَوۡقَ الۡعَذَابِ بِمَا كَانُوۡا يُفۡسِدُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا ہم ان کے عذاب پر مزید عذاب بڑھا دیں گے کیونکہ وہ فساد کرتے تھے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا ہم ان کے عذاب پر مزید عذاب بڑھا دیں گے کیونکہ وہ فساد کرتے تھے۔ (النحل : ٨٨)

دوسروں کو کافر بنانے والوں کو دگنا عذاب ہونا :

اس سے پہلی آیت میں ان کافروں کی وعید زکر فرمائی تھی جنہوں نے خود کفر کیا اور اس آیت میں ان کافروں کی وعید ذکر فرمائی ہے جو خود بھی کافر تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روک کر اور ان کو گمراہ کر کے انہیں کافر بنایا۔ چونکہ ان کا کفر دوگنا تھا اس لیے ان کی سزا بھی دگنی فرمائی۔ لہذا فرمایا ہم ان کے عذاب پر مزید عذاب بڑھا دیں گے یعنی ان کو اپنے کفر کا بھی عذاب ہوگا اور اپنے ان پیروکاروں کے کفر کا بھی عذاب ہوگا جنہوں نے ان کی پیروی میں کفر کیا۔

اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :

حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے بھی کسی شخص کو ظلما قتل کیا اس کے قتل کے عذاب میں سے ایک حصہ پہلے ابن آدم کو بھی ملے گا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٧٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٩٨٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٢٦، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١١١٤٢ )

نیز اس کی نظیر یہ حدیث ہے :

حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ ایجاد کیا اس کو اپنی نیکی کا بھی اجر ملے گا اور بعد والوں کی نیکیوں کا بھی اجر ملے گا اور ان کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، اور جس شخص نے اسلام میں کسی گناہ کا طریقہ ایجاد کیا اس کو اپنے گناہ کا بھی عذاب ہوگا اور بعد والوں میں سے جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ کا بھی عذاب ہوگا اور بعد والوں کے عذاب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٥٤، سنن ابن مارجہ رقم الحدیث : ٢٠٣)

علامہ یحی بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث میں نیک کاموں میں ابتدا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اچھے کاموں کی ابتدا کرنے پر ابھارا ہے اور باطل اور قبیح کاموں کے ایجاد کرنے سے ڈرایا ہے اور جو شخص نیکی کی ابتدا کرتا ہے اس کے لیے فضل عظیم ہے۔ ایک حدیث میں ہے : ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٦٠٧ ،۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣) اس باب کی حدیث ابن جریر، اس حدیث کی مخصص ہے اور اس سے مراد وہ نئے کام ہیں جو باطل ہوں اور وہ بدعات مذمومہ ہیں۔ (یعنی وہ نیا کام کو خلاف شرع ہو، کسی سنت کا مغیر ہو اور اس کو دین میں داخل کرلیا جائے) نماز جمعہ کے باب میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے اور ہم نے وہاں یہ ذکر کیا ہے کہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں : واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ۔ (صحیح مسلم بشرح النووی ج ٤ ص ٢٨٠٦، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ١٤١٧ ھ)

علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ نے علامہ نووی کی اس عبارت کو نقل کیا ہے اور مزید یہ لکھا ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ نیکی کی ابتدا کرنے والے کو بعد والوں کی نیکیوں کا اجر ملتا ہے۔ لہذا یہ حدیث اس حدیث کی مخصس ہے جس میں ہے ہر عمل (کے ثواب) کا مدار نیت پر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١) (اکمال اکمال المعلم ج ٣ ص ٤٨٣، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 88